• news

ہفتہ اتوار ، لاک ڈائون، 5دن شام 7بجے تک کاروبار

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی کے اہم اجلاس میں ہفتے میں دو دن مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہفتہ اور اتوار کے روز مکمل لاک ڈاؤن رہے گا تاہم 5 دن کاروبار کی اجازت ہو گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کاروباری مراکز شام 7 بجے تک کھل سکیں گے جبکہ وزارت ریلوے 40 ٹرینیں چلا سکے گی۔ وزیراعظم نے قومی رابطہ کمیٹی اجلاس میں ہونے والے ان اہم فیصلوں کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کا عمل بھی تیز کرنے کا بھی فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلا تاخیر اوورسیز پاکستانیوں کی واپسی یقینی بنائی جائے گی۔ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک طرف کرونا سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف غربت، بیروزگاری اورکمزور معیشت ہے۔ ایسے میں حکومت کا لاک ڈاؤن میں مزید نرمی سے متعلق فیصلہ کیا ہو، اس پر غور کیلئے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کرونا کہیں نہیں جارہا، عوام احتیاط کریں ورنہ اپنا ہی نقصان ہوگا، لاک ڈاؤن کرونا وائرس کا علاج نہیں بلکہ اس کا پھیلاؤ روکنے کا ایک طریقہ ہے۔ ایس او پیز پر عمل کرکے اور سماجی فاصلہ اختیار کرکے بھی کرونا کا پھیلاؤ کم کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مخصوص شعبوں کے علاہ باقی سب کچھ ایس او پیز کے تحت کھولنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن عوام سے اپیل ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ لاک ڈاؤن ختم ہوگیا ہے اور پہلے کی طرح زندگی گزارنا شروع کردیں، ایس او پیز پر عمل کریں ورنہ زیادہ متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگانا پڑے گا اور پھر ان علاقوں میں کاروبار تباہ ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جتنی زیادہ لوگ احتیاط کریں گے، ایس او پیز پر عمل کریں گے اتنا بہتر ہم اس بحران سے نمٹ سکیں گے اور اپنے ڈاکٹرز اور صحت کے عملے پر کم سے کم بوجھ ڈالیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کم از کم اس سال تو ہمیں وائرس کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا، امیر ملکوں نے بھی لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کیا، پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ کرونا وائرس پھیلے گا، ہماری انتظامیہ اور پولیس پر بہت دباؤ ہے، کچھ شعبے بند رہیں گے باقی سب کھول رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ این سی سی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب بڑی تعداد میں بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا۔ عمران خان نے کہا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کیلئے پروازوں کی تعداد بڑھائی جارہی ہے، ائیرپورٹس پر ان کا ٹیسٹ ہوگا اور پھر گھروں میں بھیج دیا جائے گا، نتیجہ مثبت آیا تو گھروں میں ہی قرنطینہ کرنا ہوگا۔ عمران خان نے کہا کہ ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پیسے والے لوگ تو ایس اوپیز پر عمل کررہے ہیں لیکن عام آدمی کا کرونا کے حوالے سے مختلف رویہ ہے، اس حوالے سے ٹائیگر فورس کے رضاکار لوگوں میں شعور دیں گے کہ کس طرح کرونا کیساتھ رہنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سیاحت کا شعبہ کھولنا چاہیے، کیوں کہ بعض علاقوں میں گرمیوں کے تین سے چار مہینے ہی سیاحت ہوتی ہے اور کاروبار چلتا ہے، اگر یہ وقت لاک ڈاؤن میں نکل گیا تو ان علاقوں میں غربت مزید بڑھ جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر کے ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے دن سے آپ لوگوں کا احساس ہے کہ کیسز بڑھے تو آپ پر بوجھ بڑھ جائے گا لیکن ہمارے 13 سے 15 کروڑ لوگ لاک ڈاؤن سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ سب کا ہمیں احساس ہے اور ہم آپ کی ہر طرح کی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ جلد اس حوالے سے ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشنز سے ملاقات بھی کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی رابطہ کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں کہا ہے کہ میں بہت کلیئر تھا کہ پاکستان کو کونسا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ ہمارے ملک میں پانچ کروڑ لوگ دو وقت کا کھانا نہیں کھا سکتے، ہمارے حالات چین اور یورپ سے مختلف ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ ڈھائی کروڑ ڈیلی ویجز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کرونا وائرس کا علاج نہیں صرف پھیلاؤ کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن نہیں ہوا جیسا میں چاہتا تھا۔ امیر لوگ شور مچا رہے تھے کہ لاک ڈاؤن کر لیا۔ کراچی میں 30 سے 35 فیصد لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں ان پر لاک ڈاؤن کا کیا اثر ہونا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب تک ویکسین نہیں آتی ہمیں کرونا کے ساتھ رہنا ہوگا۔ سب سے ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ لاک ڈاؤن کا مقصد تھا کہ ہسپتالوں پر دباؤ نہ پڑے۔ لاک ڈاؤن احتیاط ہے وائرس کا علاج نہیں۔ ایک طرف وائرس دوسری طرف بھوک و افلاس کو روکنا تھا۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ بدقسمتی سے جیسا لاک ڈاؤن ہوا اس کی وجہ سے نچلے طبقے کو بڑی تکلیف ہوئی کاروبار اور تعمیراتی شعبے کو میں کبھی نہیں روکتا۔ جزوی لاک ڈاؤن کا مقصد وائرس کا پھیلاؤ کم کرنا تھا کرونا جا نہیں رہا اس کے ساتھ رہنا ہے۔ امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے بھی لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کیا امریکہ میں ایک لاکھ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ امریکہ نے فیصلہ کیا مکمل لاک ڈاؤن کیا تو معیشت بیٹھ جائے گی۔ پہلے دن کہا تھا کرونا پھیلے گا اور اموات بڑھیں گے۔ وباء آہستہ آہستہ پھیلے کی تو ہسپتالوں پر پریشر نہیں پڑے گا ہمیں ایک ذمے دار قوم بننا پڑے گا۔ لاک ڈاؤن کھولنے کے بعد بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ وائرس دوبارہ نہ پھیلے۔ گلگت‘ بلتستان اور خیبر پی کے حکام سیاحت کا شعبہ ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کا فیصلہ کریں گے جن شعبوں میں خطرات زیادہ ہیں وہ نہیں کھولے جائیں گے چند مخصوص شعبے بند رہیں گے باقی سب کھول دیئے جائیں گے پیسے والے لوگ ایس او پیز پر عمل کر رہے ہیں عام آدمی کا کرونا کے حوالے سے رویہ مختلف ہے ٹائیگر فورس کے رضا کار لوگوں کو شعور دیں کس طرح کرونا کے ساتھ رہنا ہے ڈاکٹرز اور نرسز نے قربانیاں دیں ہمیں ان کا احساس ہے کہ ان پر پریشر ہے ہم جتنی بے احتیاطی کریں گے اتنا نقصان ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کم از کم اس سال تو ہمیں کرونا وائرس کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا غربت اور وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ہمیں احتیاط کرنا ہوگی اپیل ہے ملک کی خاطر‘ غریب لوگوں کی خاطر ایس او پیز پر عمل کریں حکومت کے پاس لوگوں کو مزید پیسے دینے کیلئے وسائل نہیں ہماری ایکسپورٹ گر چکی ہیں لاک ڈاؤن کے باعث محصولات 30 فیصد کم ہو گئی ہیں دنیا میں سرمایہ کاری رک گئی ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت پر منفی اثر پڑا ہے ملک کے معاشی حالات پہلے ہی اچھے نہیں تھے 80 فیصد کیسز بیرون ملک سے پاکستان آئے صوبوں کو خدشہ تھا کرونا بیرون ملک سے آئے گا افسوس سے کہنا پڑتا ہے اموات میں بھی اضافہ ہوا اگر لاک ڈاؤن بڑھایا تو غربت بڑھے گی ہماری انتظامیہ اور پولیس پر بہت دباؤ ہے اٹلی کے وزیراعظم سے بات ہوئی انہوں نے بتایا طبی عملے پر کتنا بوجھ پڑا۔ پاکستانی مزدور‘ دبئی‘ سعودی عرب‘ یورپ اور دیگر ممالک میں پھننسے ہوئے ہیں۔ 25 فیصد لوگ ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور بل گیٹس کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ ٹیلی فونک رابطے میں کرونا وائرس سے متعلق تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔ وزیراعظم نے موجودہ صورتحال میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے تعاون کو سراہا۔ دریں اثناء ریلوے کے محدود آپریشن میں مزید 10 ٹرینیں شامل کر لی گئیں۔ جس کے بعد روزانہ چلنے والی ٹرینوں کی تعداد 40 ہوگئی۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کیلئے 60 فیصد سیٹوں پر بکنگ جاری ہے۔ نئی ٹرینوں میں شالیماری ایکسپریس‘ بہاؤ الدین زکریا‘ سرسید‘ کراچی ایکسپریس اور راول ایکسپریس شامل ہیں۔ شالیمار ایکسپریس ایس او پیز کے مطابق پہلے روز 314 مسافر لے کر کراچی کیلئے بروقت روانہ ہوئی‘ دوسری ٹرین سرسید ایکسپریس راولپنڈی سے کراچی روانہ ہوئی۔ بہاؤ الدین زکریا ملتان سے شام 4 بجکر 45 منٹ پر کراچی کیلئے روانہ ہوگی‘ کراچی ایکسپریس لاہور سے کراچی کیلئے رات 8 بجے روانہ ہوگی جبکہ راول ایکسپریس لاہور سے راولپنڈی کیلئے رات ساڑھے 12 بجے روانہ ہوگی۔ دیگر ٹرینوں کی طرح ان ٹرینوں میں بھی سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کیلئے صرف 60 فیصد سیٹوں پر بکنگ کی جائے گی‘ شہری ای بکنگ سمیت ریزرویشن دفاتر سے بھی بکنگ کرا سکیں گے۔قومی رابطہ کمیٹی نے مخصوص شعبوں کے علاہ باقی سب کچھ ایس او پیز کے تحت کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم فی الحال ہفتے میں دو دن مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے گا۔ ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈاؤن رہے گا۔ 5 دن کاروبار کی اجازت ہو گی۔ ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا تو زیادہ متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگانا پڑے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کاروباری مراکز شام 7 بجے تک کھل سکیں گے جبکہ وزارت ریلوے 40 ٹرینیں چلا سکے گی۔ اس بات کا فیصلہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جو پیر کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ صوبائی حکام ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح کا لاک ڈاؤن ہوا میں اس طرح کا لاک ڈاؤن نہیں چاہتا تھا، ہم اجتماعات، تقریبات، کھیلوں، سکولوں،جامعات سمیت ہر چیز پر پابندی لگا دی تھی لیکن میں کاروبار اور تعمیرات کی صنعت کبھی بند نہیں کرتا لیکن 18ویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے پاس اختیارات تھے، جس طرح کا لاک ڈاؤن ہوا اس نے ہمارے نچلے طبقے کو بہت تکلیف پہنچائی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کچھ شعبے بند رہیں گے باقی سب کھول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن شعبوں کو نہیں کھولنا ہے اس کی تفصیلات جلد عوام کے سامنے رکھ دی جائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم سن رہے ہیں کہ ہسپتالوں میں جگہ ختم ہوگئی ہے لہٰذا ہم یہ پروگرام لارہے ہیں جس کے تحت روزانہ یہ بتایا جائے گا کہ کس شہر میں کس ہسپتال میں وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں اور کہاں نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ابھی ہر شہر میں 50 فیصد سے زیادہ وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں، ساتھ ہی ہم اپنی استعداد میں بھی اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اس وائرس کے ساتھ کامیابی سے گزارا کرنا ہے تو یہ ذمے داری عوام کی ہے اور جتنا عوام احتیاط کریں گے، ہم اتنا ہی بہتر طریقے سے اس سے گزارا کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک فہرست بنائی ہے جس میں ان شعبوں کا ذکر ہے جن کو ہمیں بند کرنا ہے اور باقی ہم نے کھول دیے ہیں البتہ جہاں خطرہ زیادہ ہے وہ ابھی بھی ہم نے بند رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے قوم سے ذمے داری لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک ذمے دار قوم بننا پڑے گا اگر ہمیں لوگوں کو غربت سے بچانا ہے اور ساتھ ساتھ وبا کے پھیلاؤ کو بھی کم کرنا ہے اس عروج گزرجائے گا اور ہمارا معاشرہ بھی برے اثرات سے بچ جائے گا۔ علاوہ ازیں معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہاک ہے کہ کینسر کی تعداد اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے آنے والے دو ہفتے سخت ہوں گے ریسورس مینجمنٹ سسٹم کا آغاز کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ گزشتہ روز کی میٹنگ میں تمام صوبے آن بورڈ تھے این سی سی میٹنگ میں تمام وزراء ا علیٰ موجود تھے پرانے شکوے ضرور تھے لیکن آج کے فیصلوں پر کسی نے شکایت نہیں کی سندھ نے کسی ایک ایشو پر بھی اعتراض نہیں کیا مزید سختی کرنے کا کسی صوبے نے نہیں کہا ۔ وزیراعظم عمران خان کا اٹلی کے ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا دونوں رہنماؤں کے درمیان کرونا سمیت مختلف امور پر بات چیت ہوئی وزیراعظم نے اٹلی میں کرونا سے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن اور خدشات سے آگاہ کیا وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنا اقوام متحدہ قراردادوں کی خلاف وری ہے مودی حکومت کی پالیسیاں خطے کے امن کیلئے خطرہ ہیں کرونا کے دوران بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سلوک پر عالمی برادری آواز اٹھائے۔

ای پیپر-دی نیشن