مظاہرے جاری، پولیس، چیف برطرف، فوج بلا لیں گے، ٹرمپ: امریکہ عوام کو سانس لینے دے: ایران
واشنگٹن(این این آئی‘نوائے وقت رپورٹ‘ اے پی پی‘ صباح نیوز) امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں پیراور منگل کی درمیانی شب وائٹ ہائوس کے اطراف کے علاقے میدان جنگ کا منظر پیش کرتے رہے۔ پولیس اور مظاہرین کے مابین پْرتشدد جھڑپیں جاری رہیں۔ انسداد تخریب کاری پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ادھر وائٹ ہاؤس کی ترجمان کائلی مک کین نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ 24 ریاستوں میں نیشنل گارڈ کے 17ہزارہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرانصاف اور دفاع اور چیف آف سٹاف سے اس بحران پر بات چیت کرنے کے لیے ایک کمانڈ سنٹر بنانے کاحکم دیدیا اورکہاکہ نیشنل گارڈ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے تیار ہے مگر امن وامان کی پہلی ذمہ داری ریاستوں کی ہے۔ فسادات کو روکنا ریاستی گورنروں کی ذمہ داری ہے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ صدر کی پریس کانفرنس میں وائٹ ہاؤس نے مظاہروں کے دوران تخریب کاری پر اکسانے کی ویڈیوز دکھائی گئیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکی شہروں میں لوٹ مار جاری نہیں رکھی جا سکتی۔ ایک دوسری پیشرفت میں نیویارک کے میئر بل ڈی پالسیائو نے ہنگاموں کے سبب پیر سے شہر میں رات کے کرفیو کا اعلان کر دیا، نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں ہزاروں مظاہرین نے امریکی پولیس کے تشدد سے سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے خلاف امریکی قونصلیٹ کے باہر پرامن طریقے سے احتجاج اور دارالحکومت ویلنگٹن میں 100سے زیادہ افراد نے پارلیمنٹ کی عمارت سے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کیا۔ احتجاجی مظاہرے آسٹریلیا، نیدرلینڈ اور نیوزی لینڈ سمیت دیگر ممالک تک پھیل گئے ہیں۔ آکلینڈ میں امریکی قونصلیٹ کے باہر مظاہرین نے پرامن مارچ کیا۔ ترجمان ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا امریکی حکومت اپنے عوام پر تشدد بند اور انہیں سانس لینے دے‘ ریاست کے جبر پر دنیائے امریکی عوامکی چیخ و پکار سن لی‘ آپکے ساتھ کھڑی ہے جبکہ سیکرٹری جنرل اقوام متھدہ گوتریس نے مالبہ کیا حکام مظاہرین کیخلاف تحمل کا مظاہرہ کریں‘ امریکہ میں پولیس تشدد کیسز کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ امریکہ میں پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی موت،جس کے بعد امریکہ بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، کو سرکاری پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ’قتل‘ قرار دے دیا گیا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے پْرتشدد احتجاج ختم نہ کیا تو وہ فوج طلب کر لیں گے۔ ہینیپین کاؤنٹی میڈیکل اگزیمینر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جارج کا سانس رکنے کی وجہ سے انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ جارج کی گردن پر گھٹنا ٹیکنے والے پولیس افسر ڈریک شیوان پر ’غیر ارادی قتل‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ اگلے ہفتے عدالت میں پیش ہوں گے۔ ان کے ساتھ تین دیگر پولیس افسرکو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔ لیکن پولیس تحویل میں جارج کی ہلاکت کے رد عمل میں شروع ہونے والے مظاہروں کا آج ساتواں دن ہے اور امریکہ کے مختلف شہروں میں ایسے پر تشدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی مثال کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔ دریں اثنا میسوری کے شہر سینٹ لوئیس میں جاری بدامنی کے دوران چار پولیس والوں کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ نیو یارک کے معروف ڈیمپارٹمنٹ سٹور میسیز کو توڑ کر لوگ اس میں گھس گئے اور ایک نائیکی کے سٹور کو لوٹ بھی لیا گیا جبکہ دوسری کئی دکانوں اور بینکوں کے شیشے توڑ دیے۔ اس معاملے میں بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور شہر میں منگل کو رات آٹھ بجے سے دوبارہ کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو روکنے کے لئے فوج بلانے کی دھمکی دی ہے۔ جبکہ مسئلہ حل کردونگا۔ جو بائیڈن نے کہا کہ 'مسٹر ٹرمپ امریکی فوج کو امریکی عوام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی اور سینیٹ میں اقلیتی رہنما چک شمر نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پرامن مظاہرین کو 'آنسو گیس' کا نشانہ بنایا گیا تاکہ صدر کسی چرچ کے باہر فوٹو کھنچوا سکیں۔ شومر نے ٹوئٹر پر لکھا: ’یہ صدر کس حد تک جاسکتا ہے؟۔ ان کے اقدامات سے اس کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے۔‘امریکہ میں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد صورتحال کشیدہ ہے کینٹکی میں پولیس چیف کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جبکہ وائٹ ہائوس کے باہر مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں۔ مظاہرے فوجی طاقت سے روکنے کی دھمکی پر صدر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ صدر ٹرمپ نے چرچ کے نمائشی 4دورے کئے اور تصویر کھنچوانے پر بشپ برہم ہو گئے۔ مذہبی شخصیات نے کہا کہ مقدس جگہ کو مقدس مقصد کیلئے ہی استعمال کرناچاہئے تھا ہیوٹن کے پولیس چیف نے امریکی صدر کو کھری کھری سنا دیں اور کہا کہ کوئی تعمیری بات نہیں کر سکتے تو اپنا منہ بند رکھیں۔ آپ اس طرح کی باتیں کر کے لوگوں کی زندگیاں دائو پر لگا رہے ہیں۔