جسٹس فائز عیسیٰ کیس: ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ، ٹھوس شواہد نہیں تو ساکھ پر سوال کیوں؟ سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے حکومتی وکیل فروغ نسیم کے سامنے چار سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب وہ آج کی سماعت کے دوران دیں گے۔ کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے بیرسٹر فروغ نسیم کے پیش ہونے پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ جبکہ اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے فروغ نسیم کو پیش ہونے کی اجازت دینے کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کردیا گیا ہے جس پر عدالت فیصلہ کرے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت شروع کی تو سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے عدالت میں پیش ہوکر موقف اپنایا کہ وفاق کی جانب سے اس کیس میں پیش ہو رہا ہوں، اس دوران فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کیس شروع کرنے سے قبل کہوں گا کہ سماجی فاصلے کو قائم رکھیں، کمرہ عدالت میں جو لوگ جڑ کر بیٹھے ہیں ان سے کہوں گا کہ فاصلہ قائم رکھیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے۔ سابق اٹارنی جنرل کے استعفی کے بعد فروغ نسیم پیش ہو رہے ہیں اس لئے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑیں اور عدالت کو مناسب فیصلے تک پہنچنے کے لیے ہمیں معاونت درکار ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیاکہ گرمیوں کی تعطیلات سے قبل اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ مناسب ہو گا آپ اپنے اعتراضات واپس لیں بصورت دیگر ہم فیصلہ دیں گے، جس پر وکیل منیر ملک نے کہاکہ یہ انصاف اور شفافیت کا مقدمہ ہے۔ اس دوران فروغ نسیم نے جب یہ کہا کہ اٹارنی جنرل نے مطلوبہ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہے، تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا سرٹیفکیٹ ریکارڈ پر لے کر آئیں، سرٹیفکیٹ کے ریکارڈ آنے کے بعد فیصلہ کریں گے۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی تحریری درخواست کی زبان پر اعتراض ہے۔ تو جسٹس عمر عطا بندیال نے فروغ نسیم سے کہا کہ وہ مقدمے کے میرٹ پر بات کریں۔ درخواست میں کیا کہا گیا ہے اسے چھوڑیں۔ فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں، اس حقیقت کو درخواست گزار تسلیم کر چکے ہیں۔ عدالت کے سامنے آرٹیکل 209 کے تحت جج کے مس کنڈکٹ کا معاملہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئیں۔ معاملہ منی ٹریل کا ہے، یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا؟۔ اگر جسٹس قاضی فائز عیسی منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے، معزز جج کی معاشرے میں بڑی عزت و تکریم ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں پہلے یہ بتائیں جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسی کی ہیں۔ اس پر فروغ نسیم نے کہاکہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے کہ جائیدادیں انکی نہیں ہیں۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ میرا بیٹا کوئی جائیداد خرید لیتا تو کیا میں اسکا جواب دہ میں ہوں گا؟۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے بچے اور اہلیہ انکے زیر کفالت ہیں تو ثابت کریں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ اگر بچے اور اہلیہ زیر کفالت نہیں تو درخواست گزار پر ذمہ داری ہے وہ بتائیں کن وسائل سے جائیدادیں خریدیں۔ فروغ نسیم نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے بجائے آئینی درخواست دائر کر دی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ معزز جج کہتے ہیں منی ٹریل اور وسائل کا بچوں اور اہلیہ سے پوچھا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جس کے نام جائیدادیں ہیں ان کو نظر انداز کر کے دوسرے سے سوال کیسے پوچھا جا سکتا ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین کے سوالات: جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے؟۔ کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟۔ ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے؟۔ کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟۔