جسٹس فائز کیس: جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں ، وہ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے : سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں حکومتی وکیل سے تحریری معروضات طلب کرلیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی۔ غیر ملکی جائیدادیں بچوں کے نام خریدی گئیں۔ ٹیکس ریٹرن سے بظاہر لگتا ہے بطور وکیل جسٹس قاضی کے پاس کافی پیسہ تھا۔ ہمیں جج کی بددیانتی یا کرپشن دکھائیں۔ ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے۔ جج شیشے کے گھر میں لیکن جوابدہ ہے۔ آئین ججز کو ذاتی حملوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کچھ ایسا دکھائیں جس سے پتہ چلے یہ جائیداد جج صاحب نے خاندان کے افراد کے نام خریدی۔ حکومتی وکیل فروغ نسیم نے موقف اپنایا کہ عدالتی سوالات کا جوابات دینے سے قبل چند حقائق عدالت کے سامنے رکھوں گا لیکن عدالت کے تمام سوالات کے جوابات میرے پاس ہیں۔ اے آر یو نے کیسے سارے معاملے کی انکوائری کی۔ عدالت کو سب بتائوں گا۔ 1988ء کے بعد برطانیہ میں ہر پراپرٹی کا ریکارڈ اوپن ہے، اے آر یو کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاآپ منی ٹریل ہی بات کرتے ہیں۔ بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔ اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا۔ الزام ہے کہ لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی گئی، جو ظاہر کرنا چاہیے تھی۔ فروغ نسیم نے کہا عدالت کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی۔ قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے 2014 میں آمدن 9285 ظاہر کی ۔ 2011 اور 2013 میں بچے تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیسے مہنگی پراپرٹی خرید سکتے تھے۔ 2011 اور 2013 میں بچوں کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا۔ جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی۔ جس پر فروغ نسیم نے کہا ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ ایف بی آر حکام کو خوف تھا جج کے خلاف کارروائی کی تو انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے گا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا ایف بی آر حکام کارروائی نہیں کرتے تو کیا صدر مملکت قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں ہر ایک کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق ہے۔ مقدمہ کے حوالے سے ہر ایک چیز کا جائزہ لیا جائے گا۔ کسی نقطہ کو بغیر جائزہ لئے نہیں چھوڑا جائے گا، یہ بھی دیکھنا ہے کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت تھے یا نہیں تھے، اس سارے کیس میں کسی چیز کو کٹ شارٹ نہیں کیا جاسکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے نام کا پتہ کیسے چلا۔ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے نام کے سپیلنگ بھی نہیں آتے ہیں۔ جب نام کے سپیلنگ درست نہیں ہونگے تو ویب سائٹ پر سرچ کیسے ہو سکتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا حکومت نے وحید ڈوگر کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ وحید ڈوگر کس میڈیا کیلئے کام کر رہا ہے۔ وحید ڈوگر کا ماضی کیا ہے۔ وحید ڈوگر کی درخواست پر بڑی تیزی سے کام کا آغاز ہوگیا۔ وکیل فروغ نسیم نے کہا جب وحید ڈوگر سے معلومات کے ذرائع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا بطور صحافی میں اپنے ذرائع کسی کو نہیں بتا سکتا تاہم تین مختلف ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اگر معلومات سامنے آجائیں تو حکومت ذرائع معلوم کئے بغیر کارروائی کر سکتی ہے۔ عدالتی فیصلہ کے مطابق مجھے معلومات کو دیکھنا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو غیب سے معلومات ملی، اس ملک میں بہت سے کام غیب سے ہوتے ہیں، کیا حکومت کیلئے وحید ڈوگر کے کوائف کا جائزہ لینا ضروری نہیں تھا۔ اے آر یو یونٹ کی حیثیت کیا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا ہر سوال کا جواب دوں گا لیکن کوشش ہے کیس کے حقائق پر دلائل مکمل کر لوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف انکوائری کے لیے صدر مملکت کی اجازت درکار نہیں تھی وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اے آر یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی پہلی پراپرٹی 2004 میں خریدی گئی، 2011 میں بیٹی کا نام جائیداد میں شامل کیا۔ جوڈیشل کونسل نے ریفرنس دائر ہونے پر معزز جج کو نوٹس جاری نہیں کیا۔ جوڈیشل کونسل نے پہلے اٹارنی جنرل کا موقف سنا۔ پھر جسٹس قاضی فائز سے جواب مانگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ابتدائی جواب میں پراپرٹی سے انکار نہیں کیا۔ جوڈیشل کونسل نے 12 جولائی 2019 کو جج صاحب کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی۔ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ غیر ملکی جائیدادیں بچوں کے نام خریدی گئیں۔ 2009 میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی بطور وکیل آمدن 3 کروڑ 72 لاکھ تھی، جس سے بظاہر لگتا ہے بطور وکیل جسٹس قاضی کے پاس کافی پیسہ تھا وہ کامیاب وکیل تھے، ہم نے یہاں دیکھا ہے غیر ملکی جائیداد کو ٹرسٹ کے ذریعے چھپایا گیا۔ فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی بنک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دکھا دیں، میرا ایک لائن کا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اگر پیسہ بینکوں کے ذریعے گیا ہے تو منی لانڈرنگ کی تعریف کیا ہوگی۔ فروغ نسیم نے کہا دوسرے جج نے تو دھرنا فیصلہ نہیں دیا۔ حکومت نے انکے خلاف بھی ریفرنس فائل کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے زرعی زمین پر ایگریکلچرل ٹیکس دینے کا ریکارڈ نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے الزامات کا جواب دینے کے بجائے آزاد عدلیہ کے پیچھے چھپنے کا سہارا لیا۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ریفرنس کی کارروائی کو زیر بحث لائیں، صدر مملکت نے جب ریفرنس کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس کیا معلومات تھی۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا صدر مملکت نے ریفرنس کے حوالے سے معلومات خود حاصل نہیں کی۔ وکیل فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ منی ٹریل دے دیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا قانون کے تحت جج صاحب منی ٹریل دینے کے پابند ہیں۔ آپ سوال پر آتے نہیں اور قانون بھی نہیں دکھا رہے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا انکم ٹیکس کا نوٹس جج کی اہلیہ کو جاری کیا گیا؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جج کہتا ہے کہ پراپرٹیز کا مجھ سے نہیں متعلقہ لوگوں سے پوچھیں۔ آپ کہتے ہیں کہ جواب جسٹس قاضی فائز عیسی دے۔ اگر میری چار بیویاں اور دس بچے ہوں تو اور ان بچوں میں سے کوئی بیرون ملک جائیداد خرید لے تو کیا انکی جائیداد کا حساب مجھ سے مانگا جائے گا۔ کیا یا جائیداد خریدنے والے سے پوچھنا مناسب ہو گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیا ایف بی آر کے غیر ملکی جائیداد ظاہر کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے۔ فروغ نسیم نے کہا قانون کے مطابق جج کے بچے ٹیکس ایمنسٹی کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا یہ ٹیکس چوری کا مقدمہ ہے، ؟ فروغ نسیم نے کہا جوڈیشل کونسل کے سامنے جج کا مقدمہ ہے۔ بھارت میں جج کے اہلیہ بچوں کے نام اثاثے تھے تحقیقات شروع ہوئیں تو بھارت کے اس جج نے استعفی دے دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیا پاکستان کے قانون میں جج پر جائیداد ظاہر کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ بھارت کے قانون کو چھوڑیں پاکستان کے قانون کی بات کریں۔ کیس میں ایمنسٹی سکیم کا حوالہ دلائل میں کیوں دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس مقدمے سے ایمنسٹی کا تعلق کیا ہے۔ کیا جج نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاقانون دکھا دیں جس کے تحت جج کو اپنی اور خاندان کے افراد کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے۔ سیکشن پانچ کے تحت جج کیلئے ایسی پابندی نہیں کہ وہ غیر ملکی جائیداد ظاہر کرے۔ فروغ نسیم نے کہا عدالت کے سوالات کا جواب دوں گا۔ پہلے مجھے حقائق بیان کر لینے دیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کیا سپریم جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس مسترد کر سکتی ہے، کیا سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے ریفرنس پر ایسی ڈکلیریشن دے سکتی ہے، کیا جوڈیشنل کونسل کی ڈکلیریشن اور آبزرویشن کے نتائج نہیں ہوں گے۔ فروغ نسیم نے کہا آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے سفارشات دینی ہوتی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت عظمی کے فیصلوں کے تحت جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت کے عمل کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ میرے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی ہے، ٹیکس قانون کا آرٹیکل 116 زیر کفالت کی بات کرتا ہے، کسی کے خلاف مناسب مواد کی موجودگی کو قانون سے ثابت کرنا ہوتا ہے، ریفرنس کی بدنیتی اور اے آر یو کی قانونی حیثیت پر سوالات پوچھے گئے ہیں، اگر صدارتی ریفرنس میں نقص ہیں تو کونسل سوموٹو کارروائی کر سکتی ہے، کیا جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پر کاروائی کی پابند ہے، فرض کر لیں یہ ایک کمزور ریفرنس ہے، جس کے پس پردہ مقاصد ہیں، کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کرنے کی پابند ہے، کیا کونسل ریفرنس میں کمی کوتاہی نظر انداز کر کے کارروائی کر سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اے آر یو نے کتنی عوامی شکایات پر عوامی عہدہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ وقت کی کمی کے باعث عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کر تے ہوئے سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔