• news

جسٹس فائز کیس، صدر ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کے پابند نہیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ پر سوالات اٹھا دیئے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا 28 اگست کو شہزاد اکبر معاون خصوصی بنے، اسی دن ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط بھی بن گئے، ایک ہی تاریخ میں سارا کام کیسے ہوگیا؟۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا شہزاد اکبر کی اہلیت اور صلاحیت باقی جگہوں پر بھی نظر آنی چاہیے تھی ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت نے اے آر یو، یونٹ کے کردار اور قانونی سوال کیے ہیں، شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کی بجائے اے آر یو یونٹ کو پذیرائی کیوں دی۔ وکیل فروغ نسیم نے کہا پہلے مجھے حقائق بیان کرنے دیں اس میں مقدمے کو سمجھانے میں آسانی ہو گی، عدالت نے سوالات سے مجھے بہت معاونت فراہم کی،27 ایسے قانونی نکات ہیں جن پر دلائل دونگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت کے سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں، اسی لئے عدالت نے اے آر یو، یونٹ کے کردار پر قانونی سوال کیے ہیں، شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کی بجائے اے آر یو یونٹ کو پذیرائی کیوں دی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کی وکالت کون کر رہے ہیں۔ وکیل فروغ نسیم نے بتا یا کہ صدر مملکت کی ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود اور وزیراعظم کی وکالت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کریں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ فروغ نسیم آپ اپنے انداز سے دلائل دیں اور آگے بڑھیں۔ جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا، فروغ نسیم نے کہا صدر مملکت پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں، جبکہ وزیر اعظم کرکٹر رہے اور سیاست کی۔ فروغ نسیم نے کہا صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے، اس قسم کی سمریوں پر سٹڈیز اور متعلقہ وزارتوں سے رائے لی جاتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آرٹیکل 209 کے اختیارات بڑے منفرد ہیں، صدر مملکت کا کردار جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے پر بڑا اہم ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آرٹیکل 209 محض ایک آرٹیکل نہیں ہے، آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے، ریفرنس کے موادپر صدر کو اپنا ذہن اپلائی کرنا ہوتا ہے، ریفرنس فائل کرنا کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے، صدر مملکت آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نا مکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں، صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں، صدر مملکت ایڈوائس پر ریفرنس کونسل کو بھجوانے کے پابند ہیں یہ غلط دلیل ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فروغ نسیم اے آر یو کے بارے میں ہمیں کچھ بتا دیں۔ اے آر یو کی انکوائری پر مواد صدر مملکت کے سامنے رکھا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا صدر مملکت کی رائے آزاد ہوتی ہے یا کسی پر منحصر ہوتی ہے، یہ بڑا اہم سوال ہے، پہلے دیگر اہم چیزوں کو ایڈریس کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا فروغ نسیم آپ کے پاس سوالوں کی قطار ہے جنکے جوابات دینے ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا اثاثوں کو غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لے جانا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اے آر یو کی حیثیت قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے از خود نوٹس لیا جس میں مختلف آبزرویشنز دی گئی اور انہی کے نتیجے میں اے آر یو بنا جس کے قواعد کی منظوری کابینہ نے دی۔ بیرون ملک سے لوٹے گئے اثاثے واپس لانا اے آر یو کے قیام کی وجہ بنی۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا یہ بتا دیں کہ عدالت عظمی نے اے آر یو بنانے کا حکم کہاں دیا۔ فروغ نسیم نے کہا اے آر یو رولز آف بزنس کے تحت بنایا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اے آر یو کا قانون کے تحت بنے اداروں پر تھرڈ پارٹی اطلاق کیسے ہو سکتا ہے۔ فروغ نسیم نے کہا میری یہ دلیل نہیں کہ عدالت کے حکم پر اے آر یو کو بنایا گیا۔ بیرون ممالک سے اثاثے لانے کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ شہزاد اکبر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب ہیں، وفاقی کابینہ نے غیر ملکی اثاثے واپس لانے کے لیے ٹاسک فورس بنائی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اب تک اے آر یو کی کار کردگی کیا ہے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا وزیر اعظم کو معاون خصوصی لگانے کا اختیار ہے، شہزاد اکبر کو اے آر یو کا سربراہ کیسے لگا دیا۔ فروغ نسیم نے کہا وزیر اعظم رولز آف بزنس کے تحت اے آر یو جیسا ادارہ یا آفس بنا سکتے ہیں۔ اے آر یو کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے۔ اے آر یو کے قیام میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا۔ اے آر یو کا کام مختلف ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اے آر یو کو قانون کا تحفظ نہیں ہے۔ اس صورت میں اے آر یو کسی بندے کو چھیڑ نہیں سکتی۔ ایف بی آر اور ایف آئی اے قانون کے تحت بنے ادارے ہیں۔ اے آر یو قانون کے تحت بنا ادارہ نہیں ہے تو پھر کسی معاملے کی انکوائری کیسے کر سکتا ہے؟۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا اے آر یو انکوائری کے لیے نجی ایجنسی کی خدمات کیسے حاصل کر سکتا ہے۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا اے آر یو کو وزارت داخلہ کے ماتحت ہونا چاہیے تھا۔ ایف آئی اے کے پاس کرپشن تحقیقات کا اختیار ہے۔ جس پر وکیل فروغ نسیم نے سوالیہ موقف اپنایا کہ کیا ایف آئی اے کو ججز کی تحقیقات کا اختیار ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا پھر اے آر یو کو ججز کی تحقیقات کا اختیار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ تاثر نہ دیا جائے کہ جج احتساب سے بالاتر ہے۔ ایف بی آر قانون کے تحت اپنی کارروائی کا مجاز تھا۔ فروغ نسیم نے کہا ایک سوال ہو تو میں جواب دوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اصل میں آپ کی دلیل سے دلچسپی ہوتی ہے۔ فروغ نسیم نے کہا اے آر یو نے جج کے خلاف 209 کی کارروائی کا نہیں کہا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا پھر حکومت پاکستان کی جانب سے کس نے کہا کہ یہ معاملہ مس کنڈکٹ کا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اس معاملے کے نتائج بھی ہونگے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم آپ کے حقائق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ جبکہ آپ بھی ہمارے سوالوں کو انجوائے کرتے اور انکی تعریف بھی کرتے ہیں، لیکن یہ بتائیں کہ اے آر یو عام لوگوں کے بارے میں خفیہ معلومات کیسے اکٹھی کر سکتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا اے آر یو نے وحید ڈوگر کی درخواست پر لندن سے معلومات لینا شروع کر دیں۔ جسٹس یحی آفریدی نے کہا اے آر یو کے قواعد کے مطابق ٹیکس کے معاملات ایف بی آر کو جانے تھے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا حکومت کا مقدمہ ٹیکس قانون، فارن ایکسچینج اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا ہے۔ صدر مملکت کو اپنی رائے بنانے میں بھی قانون کا حوالہ یا قانون کی سپورٹ ہونی چاہیے۔ صدر مملکت کو کسی ایڈوایئس پر اتفاق کرنے یا نہ کرنے پر وجوہات بتانی ہوتی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا اے آر یو نے نتیجہ کیسے اخذ کیا کہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ اس ساری کارروائی کے سنگین نتائج ہونگے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ روشن آئیڈیا کس نے دیا کہ معاملہ نیب اور ایف بی آر کو بھیجنے کی بجائے ریفرنس بنایا جائے، کیس میں پہلے دن سے آپ احتساب کی بات کر رہے ہیں جو اچھی بات ہے، آپ کے مطابق کارروائی کے لیے جواز مناسب ہے، آر یو کی ایف بی آر اور ایف آئی اے سے خط و کتابت ہو رہی ہے، احتساب کی بات کی جا رہی ہے،10 ہزار ٹیکس عدم ادائیگی پر ریفرنس نہیں بن جاتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ایسا جرم بتائیں جس سے جج پر اعتماد مجروح ہوا ہو، جو سوالات اٹھائے گئے انکے جوابات دیں، ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں بدنیتی ہوئی یا نہیں،کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں نقائص ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا جوڈیشل کونسل نے پڑتال کرنے کے بعد شوکاز نوٹس جاری کیا، صدر مملکت کو جو معلومات ملیں انہوں نے جوڈیشل کونسل کو بھیج دی، ریفرنس کی تیاری میں کوئی نقص نہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا بتا دیں معاملہ ٹیکس اتھارٹی کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنانے کی تجویز کس نے دی، یا پھر آپ یہ بتا دیں ریفرنس میں جرم آپ نے کونسا بتایا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا اس حکومتی شخصیت کا نام بتائیں جس نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے۔ جسٹس مقبو ل باقر نے کہا روزہ نہ رکھنا بھی غلط کام ہے کیا اس پر بھی اے آر یو کارروائی کا کہہ سکتا ہے؟۔ اس وقت کی وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس میں ریفرنس پر تبصرہ کیا تھا، وزیراطلاعات نے کہا تھا جج صاحب نے کریز سے باہر نکل کر شاٹ لگائی تھی، لگتا ہے ریفرنس صرف کریز سے باہر نکل کر شاٹ لگانے پر بنا۔

ای پیپر-دی نیشن