کرونا بڑھے گا، روک سکتے ہیں نہ دوبارہ لاک ڈائون کرینگے: عمران
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک مزید لاک ڈاؤن برداشت نہیں کر سکتا۔ ہم کرونا کو پھیلنے سے نہیں روک سکتے، ایس او پیز پر عمل کرکے ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بات جمعہ کو ٹائیگر فورس سے خطاب میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے رضاکاروں سے خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تک ہم 10 لاکھ کرونا ٹائیگرز رجسٹرڈ کر چکے ہیں جو اس وبا بارے لوگوں میں شعور پیدا کرینگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرونا وائرس رکنے والا نہیں، اس نے پھیلنا ہی ہے۔ عوام نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو بڑا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ ہو سکتا ہے آئندہ دنوں میں کرونا کے ہاٹ سپاٹس کو بند کرنا پڑے۔ اگر ابھی بھی لوگ ایس او پیز پر عمل کریں تو ہم مشکل وقت سے نہیں گزریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے غریب ملکوں میں عائد کیے گئے لاک ڈاؤن نے تباہی مچا دی ہے تو دوسری جانب امیر ترین ملکوں میں کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جیسے امیر ترین ملک میں بھی کھانے کی شدید کمی دیکھنے میں آئی۔ وہاں کی عوام کو لائنوں میں لگ کر کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں سخت لاک ڈاؤن کیا گیا جس سے غربت بڑھی۔ ٹرانسپورٹ بند ہونے سے وہاں لوگ سڑکوں پر مرے۔ عمران خان نے کہا کہ ہمیں پتا تھا کہ لاک ڈاؤن ہونے سے غربت میں اضافہ ہوگا۔ یہ پابندی لوگوں پر مشکل ہے، اس کی وجہ سے عوام پر زیادہ بوجھ پڑا۔ اب دنیا سمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رمضان المبارک میں ایس او پیز کے تحت مساجد کھلی رکھیں، کرونا وائرس مساجد سے نہیں پھیلا۔ اللہ کا کرم ہے کہ آج 3 مہینے میں ساڑھے 17 سو اموات ہوئیں۔ وزیراعظم نے ملک کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ریونیو میں 800 ارب روپے کم ہو گئے ہیں۔ پہلے سال جو ٹیکس جمع کیا، اس کا آدھا قرضوں کے سود کی ادائیگی میں دیا۔ اگر ریلیف پیکج کا اعلان نہ کرتے تو ملک کے حالات خراب ہو جاتیانہوں نے بتایا کہ جو قرضے پچھلی حکومت نے لیے، اس پر 5 ہزار ارب سود ادا کر چکے ہیں، ابھی آگے آگے مزید چیلنجز آنے ہیں۔ ملک لاک ڈاؤن برداشت نہیں کر سکتا۔ بجٹ میں ہمیں بہت بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ بند علاقوں میں کھانا پہنچانے کیلئے ٹائیگر فورس کی ضرورت پڑے گی۔ یہ فورس ٹڈی دل کی زد میں آنے والے علاقوں میں بھی مدد کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی کووِڈ 19 ریلیف ٹائیگر فورس کو ٹڈی دل اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث شجرکاری مہم میں شامل ہونے کی ذمہ داری دے دی۔ دنیا میں صرف 2 ملک تھے جنہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ کورونا کے باعث پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں رضاکاروں کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے رضاکاروں کی ضرورت تھی جو عوام میں جا کر کورونا وائرس سے بچاؤ کے طریقوں کے حوالے سے آگاہی دیں۔وزیراعظم نے یہ کہا کہ ہم واحد مسلمان ملک تھے جس نے یہ فیصلہ کیا کہ رمضان المبارک کے دوران مساجد کھلی رکھی جائیں گی اور اس سلسلے میں ایس او پیز پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ مخالفین نے بہت شور مچایا کہ مساجد بند کی جائیں کیونکہ وبا پوری دنیا میں پھیل گئی ہے لیکن ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ مساجد سے کورونا کا پھیلاؤ نہیں ہوا اور آج دنیا کے دیگر ممالک بھی ایس او پیز پر عمل کر کے مساجد کھول رہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی عوام کو احتیاط کروائیں تو ہم اس مشکل وقت سے نہیں گزریں گے جس سے دنیا کے دیگر ممالک گزرے۔وزیراعظم نے کہا کہ برازیل اور امریکہ میں شرح اموات بہت بلند ہے لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان میں حالت خاصی بہتر ہے لیکن پھر بھی افسوس کی بات ہے کہ اتنی اموات ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کو عوام میں شعور پیدا کرنا ہے، اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کورونا کے کیسز میں کمی آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وائرس ہے اور اسے پھیلنا ہے ہم لوگوں کو کمرے میں بند نہیں کرسکتے کیوں کہ صرف اس صورت میں وائرس کا پھیلاؤ شاید رک جائے لیکن ہمارے جیسے ملک لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں شدید غربت کے باجود سخت لاک ڈاؤن لگایا گیا جس سے تباہی مچ گئی اور وہاں لوگ مرر ہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو ریلیف پہنچایا ہے، اگر ہم یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پاکستان میں برا حال ہوجاتا۔انہوں نے کہا کہ ہم لاک ڈاؤن کی جانب واپس نہیں جاسکتے یہ ملک مزید لاک ڈاؤن برداشت نہیں کرسکتا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں معلوم تھا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے پر دباؤ بڑھے گا اور پوری دنیا میں طبی عملے اس دباؤ کا شکار ہیں لیکن اگر ایس او پیز پر عمل کروایا گیا تو اس دباؤ میں کمی آسکتی ہے۔کہ ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا اس کے باوجود ٹیکس ریونیو میں 8 کھرب روپے کی کمی آئی اب تک ہم گزشتہ حکومتوں کے لیے گئے قرضوں پر 5 ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی کرچکے ہیں اس لیے ریونیو میں یہ کمی ہمارے لیے مشکلات کا سبب بنے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور اخراجات کم کرتے ہوئے آمدن بڑھانے کے طریقوں پر توجہ دینی ہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ ٹائیگر فورس کو خصوصی کارڈز دیے جائیں گے اس کا فائدہ یہ ہے کہ انتظامیہ کو آپ کی شناخت معلوم ہوگی اور جو افراد بے روزگار ہوئے ان کی معلومات آپ حکومت کو فراہم کریں گے جبکہ ہم پہلے سے دی گئی معلومات پر کام کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے مزید 2 شعبوں میں ٹائیگر فورس کی ضرورت ہے جس میں ایک ٹڈی دل ہے جو 30 سال بعد پاکستان میں اس طرح حملہ آور ہوئی ہے اس سلسلے میں آپ کو بتایا جائے گا کہ کس طرح آپ انتظامیہ کی معاونت کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو بہت بڑا خطرہ ہے کیوں کہ موسم گرم ہونے سے پاکستان کے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔انہوں نے کہا 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے میں برسات کے دوران شجر کاری کا نیا سلسلہ شروع ہوگا اس میں ٹائیگر فورس کی مدد لی جائے گی تا کہ پاکستان کو ہرا بھرا کیا جاسکے اس سلسلے میں رضاکار ہمیں جگہوں کی نشاندہی بھی کریں گے۔مستقبل میں ٹائیگر فورس کو مزید ذمہ داریاں دی جائیں گی وزیراعظم نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کوہدایت بھی کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز پر دھیان دیں۔انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ بند ہوئی جس کی وجہ اشیائے ضروریات کی فراہمی میں مشکلات پیش آئی نتیجتاً قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔لیکن ہم نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو 50 ارب روپے کے اضافی فنڈز دیے اور اشیا کی مسلسل فراہمی سے یہ قیمتیں اتنی بلند نہیں ہوئی جتنی ہوسکتی تھی۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ٹائیگر فورس کو ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی کر کے انتظامیہ کو آگاہ کرنا ہے، ہم نے ٹائیگر فورس عوام کے تحفظ کے لیے بنائی ہے جسے غریب عوام کی مدد کرنی ہے اور مستقبل میں ہم اس فورس کو مزید ذمہ داریاں دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میںاڑھائی لاکھ میں سے صرف 35 ہزار رضاکار کام کرنے آئے جبکہ پاکستان میں 10 لاکھ افراد نے اندراج کروایا اور پونے 2 لاکھ رضاکاروں سے فرائض سرانجام دئیے۔ انہوں نے کہا کہ ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کی بنیادی ذمہ داری ایس او پیز پر عمل کروانا ہے۔