سکندر کوڑے مار
کئی ایک سال میرے لئے بہت سے مصائب و آلام اورآزمائشیںلے کرآئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف "پاکستان قومی اتحاد"نے تحریک چلائی اور گرفتار ہوکرمیں پہلے ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ اور پھر ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں قید وبند میں رہا۔اب اس 1977ء کے سال کو ہی لے لیں ۔یکم جنوری کاسورج نکلا تو ملک میں انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے اور اپوزیشن بکھری پڑی تھی ۔پھر10جنوری کولاہور میں "پاکستان قومی اتحاد"کے نام سے بھٹو کے خلاف ایک سیاسی اتحادقائم ہوگیا۔جودیکھتے ہی دیکھتے پہلے ہواکا خوشگوار جھونکا ،پھر آندھی اور آخر میں ایک طوفان بن کرایسے سامنے آیاکہ بھٹو کو ایوان اقتدار سے اٹھاکر سیدھا ڈسٹرکٹ جیل پنڈی کے بلاخانے میں ڈال دیا گویا ایک رات سوئے تو ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے صبح دیکھاتو معلوم ہواکہ وہ اب وزیر اعظم نہیں رہے۔ مری کے ایک ریسٹ ہائوس میں انہیں پابند کردیا گیاہے جہاں سے ان کاسفر جوشروع ہوا توان کے آبائی قبرستان گڑھی خدابخش جاکر ختم ہواجہاں چند لوگوں کو نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دی گئی۔ذکر ہورہاتھاذوالفقار علی بھٹوکیخلاف تحریک میں میرا حصہ لینے کا‘مارچ 1977 میں تحریک کے آغاز پر مجھے گرفتار کرکے گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ بھیج دیاگیا۔تب کے زنداںکی نشانیوں میں چوہدری حامد ناصرچٹھہ‘محمود بشیر ورک‘ میاں مسعود احمد ایڈووکیٹ ‘اعجاز چیمہ ایڈووکیٹ اور خواجہ عمادالدین باقی ہیں۔اللہ انہیں لمبی عمر عطا کرے۔ آخرجون میں رہا ہوا،کچھ دن آرام کیااور 5جولائی کوضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔پیپلز پارٹی کے علاوہ فوجی حکومت اصغر خاں کو بھی اپنا حریف ہی تصور کرتی تھی ،کیونکہ وہ ایک مقبول لیڈر تھے۔میں نے گوجرانوالہ میں تحریک استقلال کے پلیٹ فارم سے اپنی تقریر میں بس اتنا کہا کہ ضیاء الحق اب جان چھوڑ دیںکیونکہ ان کاوعدہ تھاکہ وہ تین ماہ بعدانتخابات کراکے اقتدار چھوڑ دیں گے۔اور اب تین ماہ ہوچکے ہیں۔یہ کوئی ایسی قابل تعزیر بات تو نہیں تھی کہ مجھے گرفتار کرکے ایک سال قید اور دس کوڑوں کی سزادی جاتی ۔لیکن سزادے دی گئی۔اور مجھے گوجرانوالہ کی فوجی عدالت سے ڈسٹرکٹ جیل منتقل کردیاگیا‘ وہی درودیوار، وہی "چکر" (جیل کامرکزی حصہ) وہی بیرکیں اور سپرنٹنڈنٹ بھی وہی یعنی چوہدری یار محمد درانہ ۔چوہدری یارمحمد شفیق آدمی تھے اگرچہ نظم وضبط پر کوئی سمجھوتہ ان کی لغت میںنہیں تھا ،پھر بھی مجھے اپنے دفتر بلایا قید چونکہ بامشقت تھی اس لئے مجھے مشقت کے باب میں سخت کوشی سے بچانے کیلئے جیل کی فیکٹری کامنشی لگادیا ۔ ساتھ ہی میری قسمت پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ حکومتیں بدل گئیںمگر تمہاری قسمت نہ بدلی۔یار محمد عدم آباد کو چلے گئے ورنہ انہیں بتاتا کہ اسکے بعد بھی درجنوں حکومتیںبدل گئیںمگر قسمت وہیں دروازے پر کھڑی ہے اندرآنے کانام نہیں لیتی قصہ کوتاہ فیکٹری میں میز اورکرسی بھی مل گئی اور میرا شمار فیکٹری کے اندرونی انچارج جیل ملازمین اور لمبی قید کے ان لوگوں میں ہونے لگا جو نمبرداربن چکے تھے۔ لیکن ایک شخص سکندر بید مار(کوڑے مارنے والا) سب سے زیادہ مزے میں تھا۔ایک کلودودھ روزانہ ، بدن کی مالش کیلئے سرسوں کاتیل مفت اوردیگر آسائشیں بھی مفت میں ۔سکندرپہلوان عرف سکندر کوڑے مار کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔قتل کے کسی مقدمے میں سزا ہوکرگوجرانوالہ جیل"چالی" ہوگئی۔ یہاں اس کی مشقت قیدیوں کوکوڑے مارنے کی تھی کبھی بھی کسی بھی قیدی کو کوڑے مارنے کا موقع ابھی تک اسے نہیں ملاتھااس لئے تھوڑا سست بھی ہوگیاتھا۔اب جومیں جیل پہنچا تو معلوم ہواکہ پیپلز پارٹی کے کئی کارکن بھی کوڑوں کی سزا لئے کوٹھڑیوںمیں بند ہیں توسکندر کو بھی سستی چھوڑ کر روزانہ اپنی مشق کرنا پڑی جو فیکٹری کے احاطے میں ہی صبح کے وقت ہی وہ اپنے بدن پر تیل مل کر کچھ ڈنٹر پیل کر اور بیٹھکیںوغیرہ لگاکہ ہوائی چپل کاربڑ کاسول ایک درخت پر کسی مخصوص زاویئے سے باندھتا اورہاتھ میں کوڑا لہراتاہوا دورسے دوڑ لگاکرآتا،ہاتھ بھی ایک مخصوص انداز میں بلند کرکے کوڑے کی ضرب اس چار انچ چوڑے سول پرایسے لگاتا کہ مجال ہے جو کوڑے کی ضرب ذرہ برابر بھی ادھر ادھرہوجائے اوریہی اس کی مہارت تھی جس میں اس نے کمال حاصل کررکھاتھا۔مگر ستم یہ کہ یہ ساری مشق فیکٹری کے احاطے میں لگ بھگ پوراایک گھنٹہ میرے سامنے ہوتی اورمجھے ایسے محسوس ہوتا کہ سامنے درخت نہیں ٹکٹکی ہے اور وہ ربڑ سول میری ہی پشت ہے۔ایک دن میرے پاس بیٹھے ہوئے کہنے لگا کہ جب سے سزا ہوا ہوں کسی کو کوڑے مارنے کا موقع نہیں ملا۔لیکن جب آپ کو اور پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں تو یہ سوچ کر دل کو تکلیف ہوتی ہے کہ یہ گھنائو ناکام آپ کیخلاف کرنا پڑیگا۔ کیاکروں آخر قیدی ہوں اگر حکم نہ ماناتو شائد مجھے ہی کوڑے پڑجائیں ۔ پھر راز دارانہ انداز میں کہاکہ فکر نہ کریں جس دن آپ کوکوڑے مارے جائینگے میں ایک خاص وقت پر آپ کو افیون کھلادوں گا۔میں نے کھوکھلی ہنسی ہنس کرسکندر کاشکریہ ادا کیا۔ہمارے تحریک استقلال گوجرانوالہ کے ایک ساتھی علیم کھوکھر ایڈووکیٹ مرحوم نے جسٹس خلیل الرحمان رمدے کی عدالت میں ایک روز میری سزائوں کیخلاف آواز بلندکی ۔رمدے صاحب بھی کسی وقت تحریک میں رہ چکے تھے اور ذاتی طورپر بھی جانتے تھے کیونکہ میں لاء کالج پنجاب یونیورسٹی میں ان کا شاگرد تھا انہوں نے ایک سال سزا توبحال رکھی مگر کوڑے مارنے کی سزاختم کردی۔جب یہ اطلاع جیل میں پہنچی تو مجھ سے زیادہ سکندر کوڑے مارخوش تھاکہ گھنائونے کھیل سے جان چھوٹی اور پھر ایک سال بعدرہا ہوکر گھر پہنچا تومعلوم ہواکہ ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کے نام سے ایک سیاسی اتحاد وجود میں آگیا ہے۔ گویا اب منیر نیازی کے بقول ایک اور دریا کاسامنا کرنا ابھی باقی تھا۔
پس تحریر:۔بدقسمتی کی ایسی لہر آئی ہے کہ ہر کالم میں کسی ایسے دوست کاذکر آجاتا ہے جو اس دنیا سے منہ موڑگیا۔گذشتہ ہفتے کے دوران بارکے دووکلاء غلام سرور ہاشمی اور شفیق کھوکھر بھی ہم کو چھوڑ گئے ۔اللہ ان کی منزل آسان کرے۔