امیروں ، مخصوص لوگوں کیلئے کام ہوتا رہتا ہے ،عوام کیلئے کچھ نہیں ہوتا: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سیکرٹری وزارتِ موسمیاتی تبدیلی، سیکرٹری وزارتِ انسانی حقوق، چیئرمین سی ڈی اے کے نمائندہ افسر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے متعلقہ حکام کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی دارالحکومت کے 1400 سکوائرمائلز میں کمزور اور مزدور طبقے کے لیے کچھ نہیں ہوا، سی ڈی اے آئندہ سماعت پرعدالت کو بتائے کہ ٹوٹل کتنے سیکٹرز کس کس کے لیے ڈیولپ کئے گئے، بتایا جائے کہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کو کیوں تباہ و برباد کر دیا گیا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کمیشن کی رپورٹ اور سفارشات سے عام عوام اثرانداز ہو رہے ہیں، عام آدمی اگر مر رہا ہے خیر ہے مگر کام کوئی نہیں ہوگا۔ عدالت نے نمائندہ سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے نمائندہ سی ڈی اے نے استفسار کیاکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو جواب نہیں دینا؟۔ چیف جسٹس نے نمائندہ سی ڈی اے سے استفار کیا کہ ماسٹر پلان میں کمزور طبقے کے لیے کونسا سیکٹر بنا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مزدور کیلئے اس شہر میں کوئی کچھ نہیں جس مزدور نے اس شہر کو بنایا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سی ڈی اے نے اس شہر کے ماڈل پلان کو تباہ کر دیا، وفاقی حکومت اور سی ڈی اے کا ماحول کو صاف رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ امیروں اور مخصوص لوگوں کے لیے کام ہوتا رہتا ہے، عام عوام کے لیے کچھ نہیں ہوتا، عدالتی کمیشن نے کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا، انہوں نے اچھا کام کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن رپورٹ پر کسی بھی وزارت نے آج تک بات ہی نہیں کی، اس ملک میں اس کی کوئی قدر نہیں جو اچھا کام کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک میں صرف طاقتور کے لیے کام کیا جاتا ہے، سی ڈی اے نے اسلام آباد میں لوگوں کو دربدر کر دیا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت اگلے ہفتے کی تک ملتوی کر دی گئی۔