پریس کانفرنس سے عوام کا تحفظ نہیں ہوگا،کرونا، قانون سازی ہونی چاہئے ، تمام ادارے کام کرسکتے ہیں تو پارلیمنٹ کیوں نہیں :چیف جسٹس
اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ نے کرونا وائرس کے باعث ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا۔ عدالت نے حکومت کو کرونا کے خاتمے اور سینیٹری ورکرز کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے این ڈی ایم اے سے طبی سامان کی تیاری کے لیے مشینری امپورٹ کرنے اور ترکی سے ٹڈی دل سپرے کے لیے جہاز لیز پر لینے کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 4رکنی بینچ کے روبرو کیس کی سماعت ہونا تھی لیکن ایک رکن جج جسٹس مظہر عالم میاں خیل عدالت نہ آسکے تو4 رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی۔ تو اٹارنی جنرل نے کہاکہ وفاقی حکومت کرونا تحفظ کے اقدامات کررہی ہے، وفاقی حکومت اب ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیگی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ حکومت نے تاحال کرونا سے تحفظ کی قانون سازی نہیں کی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ صوبوں کی جانب سے قانون سازی کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کرونا سے تحفظ کیلئے قومی سطح پر کوئی قانون سازی ہونی چاہیے۔ قومی سطح پر قانون سازی کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا۔ اگرملک کے تمام ادارے کام کرسکتے ہیں تو پارلیمنٹ کیوں نہیں کام کرسکتی۔ قانون سازی سے حوالے سے تاحال کچھ نہیں ہوا، چین نے وبا سے نمٹنے کے لیے فوری قانون بنائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا نہیں معلوم کرونا مریضوں کی تعداد کہاں جا کر رکے گی،کرونا وائرس کسی صوبے میں تفریق نہیں کرتا، اور لوگوں کو مار رہا ہے، وفاقی حکومت کو اس معاملے پر لیڈ رول ادا کرنا چاہیے، وفاقی حکومت کرونا سے بچا ؤ کے لیے قانون سازی کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت لوگوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے، لوگوں کی زندگی کا تحفظ سب سے بڑا بنیادی حق ہے، موجودہ حالات میں لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کا تحفظ نہیں ہو گا، عوام کا تحفظ قانون کے بننے اور اس پر عمل سے ہو گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وقت سب سے بڑا اثاثہ ہے، وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا، آپ کے پاس اب وقت نہیں رہا، ایک لاکھ سے زائد کرونا مثبت کیس آگئے ہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت کو قانون سازی کی تجویز دونگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم تو پہلے دن سے فنکشنل ہیں۔ عدالتیں بند نہیں کر سکتے، ہم بھی کرونا وائرس کی حدت کو محسوس کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کو حفاظتی سامان ہر حال میں دستیاب ہونا چاہیے، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے، کرونا سے تحفظ کا حل قانون سازی ہے، قانون سازی کرنا وفاقی حکومت کے حق میں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ خدانخواستہ حفاظتی سامان نہ ہونے سے کوئی نقصان ہوا تو تلافی نہیں ہوگی، ورکرز کی ہلاکت پر وزیر اعلی جا کر معاوضے کا اعلان کر دیتے ہیں ، عدالت ایسی چیزوں کی صرف نشاہدہی کر سکتی ہے ، قانون سازی کے عملی اقدامات ہر حال میں حکومت نے کرنے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ سینٹری ورکرز گندے گٹر صاف کرتے ہیں ان کے لئے حفاظتی اقدامات کیا ہیں؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عید کے موقع کے لئے ہفتہ اتوار کو مارکیٹس کھولی گئی تھیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ لوگوں میں تاحال آگہی نہیں آئی، عید کے موقع پر لوگوں نے ایس او پیز کو نظر انداز کر دیا، ویکسین کی دریافت سے قبل راستہ احتیاطی تدابیر ہیں، کرونا کا وائرس بہت تیزی سے بڑھ گیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ پولیس والوں کو دکانداروں اور خریداروں سے پیسے لینے کی اجازت دے دی گئی ہے،کس طرح سے ایس او پیز پر عمل ہوگا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ شہریوں کو بھی ذمہ داری دکھانا ہوگی۔ممبر لیگل این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ ملک بھر میں کرونا ٹیسٹنگ کی استعداد کار 30 ہزارروزانہ سے بڑھ چکی ہے ،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ تیس ہزار ٹیسٹ تو نہ ہونے کے برابر ہیں ،پاکستان کی آبادی تو بائیس کروڑ کی ہے ،ممبر لیگل این ڈی ایم اے نے موقف اپنایا کہ ٹیسٹ کی صلاحیت کو ساتھ ساتھ بڑھایا جائے گا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ این ڈی ایم اے صوبوں کو ٹیسٹنگ صلاحیت بڑھانے کا کہے ، ممبر لیگل این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ کرونا کے مریض ایک لاکھ سے تجاوز کر چکے ہیں،کورنا ٹیسٹنگ کی100 لیب قائم کی جا چکی ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ بائیس کروڑ کے لیے صرف 100 لیب کیسے ؟ ممبر این ڈی ایم اے نے کہا کہ سو لیب صرف کرونا وائرس مریضوں کے لیے ہیں ، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا باتیں کر رہے ہیں سو لیب سے کیاہو گا؟سو لیب تو صرف کراچی میں ہونی چاہیے، بتایا جائے اب تک کتنے کرونا مریضوں کے ٹیسٹ مکمل کیے گئے ہیں۔کرونا کے کتنے ٹیسٹ سرکاری اور کتنے نجی لیب نے کیے ؟ممبر این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ یہ تمام تفصیلات صرف وزارت صحت دے سکتی ہے کیونکہ ہمارا کام لیب کو طبی سامان فراہم کرنا ہے،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اب تک کتنے ٹیسٹ کرونا کے مفت کیے گئے ہیں؟ممبر لیگل این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ حکومت کرونا کے ٹیسٹ مفت کر رہی ہے،جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ بیرون ممالک میں تو اب ہر شہری کا ٹیسٹ ہو رہا ہے ،چیف جسٹس نے سوال کیاکہ چین نے پاکستان کو کتنے وینٹیلیٹرز عطیہ کیے ہیں ؟تو ممبر لیگل کا کہا تھا کہ چین نے پاکستان 100 وینٹیلیٹر عطیہ کیے ہیں، این ڈی ایم اے نے چودہ سو وینٹیلیٹر بیرون ممالک سے خریدے ہیں، تین سو وینٹیلیٹرز باہر سے آچکے ہیں،چیف جسٹس نے سوال کیاکہ پاکستان میں وینٹیلیٹرز کون تیارکر رہا ہے ممبر لیگل نے بتایا کہ پی او ایف واہ ، ڈسکو ، اور نجی صنعت وینٹیلیٹر بنا رہے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ٹڈی دل کے معاملے پر این ڈی ایم اے نے اب تک کیا کیا ہے؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ٹڈی دل کے حملے فوڈ سکیورٹی کو بھی متاثر کریں گے، ممبر لیگل کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل کے سپرے کے لئے ترکی سے جہاز لیز پر لیا ہے،چیف جسٹس نے سوال کیاکہ اسپرے کے لئے جہاز کرائے پر کیوں لیا گیا؟ کیا پاکستان میں سپرے کے لئے جہاز لیز پر نہیں مل سکتا۔ترکی سے جہاز لیز پر لیتے ہوئے قوائد کی پیروی ہوتی ہے، کیا جہاز لیز پر لینے کے لئے ٹینڈر دیا گیا،ممبر لیگل نے کہا کہ ترکی سے جہاز ایمرجنسی بنیادوں پر لیا گیا ہے۔چیف جسٹس ۔۔۔۔ کہ کسی کی مرضی سے نہیں قانون سے کام ہوگااین ڈی ایم اے کو مرضی سے کام کرنے کا لائسنس نہیں ملا ہوا, ایک ایک چیز کا آڈٹ کروا کردیکھیں گے کس نے کرونا وائرس میں کیا کیا؟چار ماہ سے ٹڈی دل موجود ہے دو مرتبہ افزائش کر چکی ہے لیکن ٹڈی دل پر سپرے کیلئے چار جہاز فعال نہیں ہیں جہاز کے پائلٹ نہیں تھے تو یہ چار جہاز کہاں سے آگئے, ہمارے اپنے جہاز نہیں چل رہے باہر سے لا کر سپرے کیا جارہا ہے,سکھر میں ایک جہاز کھڑا ہے تیز ہوا چلی تو وہ جہاز اڑ جائے گا سکھر میں کھڑا جہازکسی چیز سے باندھ کر بھی نہیں رکھا ،جسٹس مظاہر علی نقوی نے سوال کیاکہ کیا حکومت ٹڈی دل سے لڑنے میں سنجیدہ ہے؟جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کیا پاکستان میں پائلٹس کی کمی ہے ،، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں معلوم ترکی سے جہاز لیز پر لے کر کس نے فائدہ اٹھایا؟کیا پاکستان میں ٹڈی دل نہیں ہے ؟ ممبر این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل کا ایشو موجود ہے ،۔چیف جسٹس نے کہاکہ این ڈی ایم اے ٹڈی دل کے پیچھے بھاگ رہا ہے،این ڈی ایم اے کو ٹڈی دل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے، ہم نے ٹڈی دل کو بچپن میں دیکھا تھا یا اب دیکھ رہے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ ٹڈی دل کے حملوں سے ہماری فوڈ سیکیورٹی کو کتنا نقصان ہوا ؟عدالت نے حکومت سے ٹڈی دل حملوں سے نقصانات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے قراردیا کہ بتایا جائے ٹڈی دل کے حملوں سے فوڈ سیکیورٹی کو کتنا نقصان ہوا؟، نقصان کے نتیجے میں باہر سے فوڈز منگوانے پر کتنے اخراجات آئیں گے۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ حکومت کرونا کے خاتمے کے لیے قانون سازی کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے حکومت کرونا کے خاتمے کے لیے قانون سازی کو یقینی بنائے ،عدالت نے قراردیا ہے کہ تمام حکومتیں سینیٹری ورکرز کو حفاظتی سامان کی فراہمی یقینی بنائیں۔