• news
  • image

گدھ اور گدھے!!

ویسے تو قدرت کا قانون ہے کہ ہر بڑی چیز چھوٹی چیز کو نگل جاتی ہے جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔ بھیڑیا بھیڑیوں کو کھا جاتا ہے۔ شیر بکریوں اور ہرنوں کو کھا لیتا ہے۔ چھپکلی کا کروچ کو اور کاکروچ چیونٹوں چیونٹیاں مکھیوں کو کھا جاتی ہیں۔ طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے۔ دولتمند غریبوں پر حکم چلاتے ہیں اور حکمران عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ افسر شاہی اپنے ساتھیوں کا گلا دباتی ہے ۔نوکر شاہی ضرورت مندوں کا استحصال کرتی ہے۔ عقاب چیل اور کوؤں کو دیکھیں جو چڑیوں، گلہریوں اور کبوتروں کو دبوچ لیتے ہیں۔ اُلو ہمیشہ چوہے، چمگادڑیں، مینڈک کھا جاتے ہیں۔ اس دنیا کا نظام بدلنا مشکل ہے کیونکہ ہمیشہ طاقتور قوموں نے غریب قوموں کو دبایا ہے۔ اُن پر قبضہ کیا ہے۔ ہم نہ 1857ء کا سانحہ بھول سکتے، نہ 1947 ء میں ہجرات کا واقعہ اور نہ ہی 1971ء میں پاکستان کے حصے بخرے، انگریزوں نے نوآبادیاتی نظام متعارف کرایا۔ اونچے اور نیچے طبقوں کی کشمکش اور تصادم نے جنم لیا چنگیز خان اور ہلاکو خان سے بھی پہلے سے پوری ایک تاریخ ہے جب یونان مصر روم میں طاقتور شہنشاہ کے ایک اشارے پر غلاموں کے سرتن سے جدا کر دیئے جاتے تھے۔ جب میدان جنگ میں کشت وخوں کی ندیاں بہا دی جاتی تھیں جب حق اور سچ کی سرکشی بغاوت کا نام دیکر موت کی سزائیں دی جاتی تھیں۔ ہندوستان کی تاریخ بھی خون سے لکھی گئی ہے۔ حملہ آوروں نے اس سرزمین پر قدم جمائے اور ہندوستان کے باسیوں نے اُنہیں اپنی دھرتی سے بیدخل کرنے کیلئے جوجنگیں کیں۔ اُس میں ابتک جتنا لہو بہا ہے۔ اسکا شمار ممکن نہیں۔ چار ہزار سال پہلے دراوڑ اور آریاؤں میں خونریزی برپا رہی۔ جب علم اور شعور بڑھا تو یہ جنگیں اور موتیں نسبتاً مہذبانہ ہو گئیں مثلاً ناگاساکی اور ہیروشیما پر بم برسا کر منٹوں میں موت بانٹ دی گئی۔ جب نائن الیون ہوا تو امریکہ نے عراق، افغانستان، یمن، شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چند ہزار لوگوں کی موت کیلئے لاکھوں مسلمان بموں، میزائلوں اور ڈرونز کا نشانہ بنا کر دیئے گئے۔ ایران، پاکستان، لبنان، پر مختلف طریقوں سے پابندیوں میں جکڑ دیئے گئے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، ترکی، لیبیا اور کئی دوسرے اسلامی ممالک جہاں تیل، سونے، معدنیات اور اجناس کے عظیم دفاتر اور طاقتیں تھیں۔ وہاں فحاشی عریانی جنسیات اور بے راہروی کو فروغ دیکر اُنکے اذہان کو قابو کیا گیا۔ عقائد میں تبدیلیاں برپا کی گئیں۔ تعلیمی نظام اور نصاب بدلے گئے۔ نئی نسل سے غیرت حمیت اور سوچنے سمجھنے کا جذبہ چھینا گیا۔ کمپیوٹر اور موبائل کے ذریعے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے توسط سے نئی نسلوں کی تہذیب زبان معیارات اور اخلاقیات کو تبدیل کیا گیا۔ کمزور، غریب، حریص، کم علم اور کم عقل قومیں چمک دمک سے جلدی متاثر ہو جاتی ہیں۔ جدید عہد میں خون خرابے کی جگہ ذہنوں کو بدلا گیا۔ حب الوطنی کو مارا گیا۔ خودغرضی اور شارٹ کٹ کو پروان چڑھایا گیا۔ امریکہ، اسرائیل، بھارت جیسے ممالک نے دنیا پر راج کرنے اور دوسری قوموں کو غلام بنانے کیلئے مارفیت، پروپیگنڈے اور اشہتار بازی سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے۔ قومیں تو بہت تھیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان ہمیشہ شکار ہوئے۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ علم کی کمی تھی۔ جن قوموں کے پاس علم، شعور اور ہنر تجربے کی کمی ہوتی ہے، وہی قومیں ٹارگٹ بنتی ہیں۔ مذہب، فرقہ اور زبان کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تمام اسقام بدرجہ اُتم موجود تھے۔ راتوں رات امیر ہونے کا شوق، بڑے بڑے گھروں میں رہنے کی خواہش، لمبی لمبی بیش قیمت گاڑیاں لینے کی طلب،میرٹ کی دھجیاںبکھیر کر، دوسروں کی حق تلفی کر کے، رشوتیں دے کر، سفارشیں لڑا کر، خوشامدیں چاپلوسیاں کر کے اپنی واجبی تعلیم،جعلی ڈگریوں اور ناتجربہ کاریوں، جہالتوں کے باوجود بڑے عہدوں تک ہاتھ مار ے گئے۔ کبھی اُنیس سے بائیس گریڈ کے عہدوں کا احتساب کیا جائے اور عہدوں پر اہلیتوں، ڈگریوں، تجربوں کو جانچیں تو 60 فیصد لوگ جعلساز، دھوکے باز اور نااہل پائیں گے۔ (جاری) پاکستان میں عہدوں کی بندربانٹ نے سارا نظام مفلوج اور کرپٹ کر کے رکھ ڈالا ہے۔ جب ہجرت کے وقت لوگ لٹے پٹے پاکستان آئے تو وہ اپنی تمام جائیدادیں بھارت چھوڑ آتے تھے۔ انہی لوگوں نے پاکستان بنانے کی خاطر اپنی املاکیں وقف کی تھیں اور جلسے جلوسوں اور بھارت میں مقیم مسلمانوں کی مدد، مرہم پٹی اور ہجرت کے لیے اپنے پیسے پانی کی طرح خرچ کیئے تھے کہ اپنے مسلم ملک میں، اپنی آزاد مملکت میں انصاف امن اور آزادی سے رہیں گے مگر اکثریت کو جانی مالی قربانی کاصلہ نہ ملا اور یہاں موجود ایک بڑی تعداد نے بھاگے ہوئے ہندوؤں کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔ اکثر نے جھوٹے کلیم کیے اور ککھ پتی سے لکھ پتی بن گئے۔یہی لوگ آج ارب پتی ہیں۔ پاکستان سنتے ہی مشکل ترین وقت میں گدھوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آ گئی لیکن قائد کی رحلت اور مسائل کی شدت کے باعث انکی سرکوبی نہ ہو سکی۔ ابتدائی دنوں میں گدھوں کی تعداد سینکڑوںمیں تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی اور اب تو ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ذاتی اغراض، دولت کی ہوس، عدوں کی طلب، طاقت کی بھوک نے انہیں اتنا خیرہ کر دیا کہ اپنے سوا انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سیاست، بیوروکریسی، میڈیا، عدلیہ ، تعلیم، صحت، کھیل غرض ہر شعبہ حیات میں ایسے گماشتے بیٹھے ہیں جو صرف اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ سیاست میں تقریباً چار دہائیوں سے ابن الوقتوں کا طوطی بول رہا ہے۔ جو بھی سیاست اور حکومت میں آیا۔ اُس نے اربوں روپیہ کمایا۔ عوامی بہبود کے حوالے سے کچھ کرتے موت آ گئی۔ آج بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، بھارت، چین سب ہم سے آگے اور انتہائی ترقی پر ہیں اور ہماری تنزلی کی داستانیں ختم نہیں ہوتیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اسقدر جھوٹ بولتے، سبز باغ دکھاتے ہیں کہ جاہل احمق اور جذباتی کارکن اپنے لیڈروں کو خدا سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر دوسری پارٹی کا کارکن، کوئی صحافی، دانشور، فلاسفر حقیقت بتاے تو یہ بغیر سچائی جانے گالی گلوچ کرنے لگتے ہیں۔ غلاظتوں کا یہ عالم ہے کہ سیاسی پارٹیاں آلودہ، مکروہ، اور پلید زبان استعمال کر کے پوری قوم کو اخلاقی دیوالیہ پن پرلے آئی ہیں۔ کرپشن پر لے آئی ہیں۔ کرپشن زدہ چہروں پر عقیدت کے پھول برسائے جاتے ہیں۔ گدھا بار برداری کا جانور ہے اور اس وقت پاکستانی قوم کی حالت اسی بار برداری کے جانور جیسی ہے جو بیوقوفوں کی طرح بوجھ اٹھاتا ہے لیکن بوجھ سے نجات حاصل نہیں کرتا۔ ملک میںکرونا کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لاہورمیں 35 لاکھ اور پنجاب میں 2 کروڑ کی تعداد بتا کر خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔ خدا کی قسم میں نے ایک کرونا کا مریض نہیں دیکھا۔
دوسری طرف آٹا چینی دالیں تیل پھل سبزیاں غرض ہر چیز اتنی مہنگی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے بدترین ظلم ہے لیکن کوئی اس ظلم کے آگے کھڑا نہیں ہوتا کیونکہ ہم نسل در نسل غلام ہیں۔ گدھوں اور گدھوں کے بیچ میں زندہ ہیں۔ علم، شعور اور غیرت کی کمی ہمارا اصلی مسئلہ ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن