انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار مودی کی اہلیہ کسمپرسی کا شکار
اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) بھارتی وزیراعظم نے اپنے حالیہ ماہانہ ریڈیو پروگرام ’ من کی بات‘ میں انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا ہے جبکہ موصوف کی اپنی زندگی انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں سے عبارت ہے۔ نریندر مودی کی اپنی اہلیہ یشودھا بہن پٹیل کرب کے عذاب میں اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں، 2014 تک تو مودی اپنی اہلیہ کے وجود تک سے ہی انکاری تھے۔ 2014 میں بحیثیت امیدوار برائے وزیراعظم اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرتے ہوئے مودی کو چار و ناچار زوجہ کے خانے میں اپنی بیوی کا نام لکھنا پڑا۔ اس سے قبل وہ طویل عرصہ یعنی اکتوبر 2001 سے مئی 2014 تک گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر کام کرتے رہے لیکن کبھی بھی اپنی اہلیہ کے وجود کا اقرار نہیں کیا۔ 2014 میں بھی مجبوراً جیشودھا بہن کا نام تحریر کرنا پڑا ۔ وقت حاضر کے بھارتی وزیراعظم کی اہلیہ پر وزیراعظم ہائوس میں داخلے پر مکمل پابندی عائد ہے۔موصوفہ سے مودی کی شادی 1968 میں وڈنگر (گجرات) کے مقام پر ہوئی تھی۔وزیراعظم کی اہلیہ کی حیثیت سے یشودھا کو سیکورٹی تو حاصل ہے لیکن انھیں ابھی تک یہی معلوم نہیں کہ انکی حیثیت کیا ہے، سیکورٹی پر معمور اہلکار ان کے احکام کو ماننے کی بجائے وزیراعظم سے ہدایات لیتے ہیں، یوں اس قدر سیکورٹی کے باوجود وہ خود کو قیدی تصور کرتی ہیں ۔ 1968 میں یشودھا اور مودی نے اکٹھے رہنا شروع کیا لیکن یہ دورانیہ انتہائی کم ثابت ہوا۔ فورا بعد ہی مودی اپنی اہلیہ سے الگ ہوگئے اور سنیاس کی مشقیں کرتے ہوئے ہر قسم کی آوارہ گردیوں میں مصروف ہو گئے۔ یشودھا کا اندازہ ہے کہ اس نے اپنے شوہر کے ساتھ محض تین سے چار ماہ گزارے۔وہ سکول ٹیچر کی حیثیت سے ریٹائر ہوچکی ہیں اور انکی پنشن تقریباً 14000 ماہانہ ہے۔ وہ اپنے بھائی اشوک اور ان کی اہلیہ کے ساتھ اَنجھا میں رہتی ہیں اور انتہائی سادہ زندگی گزار رہی ہے۔ آر ایس ایس کے کئی رہنما اس قسم کے تعلقات کار کا یہ فائدہ بتاتے ہیں کہ اپنی بیویوں سے دوری قائم کر کے سیاستدانوں کو مزید کامیابی مل سکتی ہے اور نریندر مودی جیسا عام چائے بیچنے والا شخص بھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہو سکتا ہے۔