قومی اسمبلی: حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی: اپوزیشن، ہر کرپشن کا احتساب ہو گا: مشیر پارلیمانی امور
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) قومی اسمبلی میں اپوزیشن پارلمینٹرین نے کہا کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی حکومت کی کیا پالیسیاں ہیں۔؟ بتایا جائے حکومت کی آخر کار کرونا پالیسی کیا ہے؟، خدارا لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ نہ کھیلا جائے، پیپلز پارٹی اور ہماری قیادت کو گرفتار کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو ہم خود تھانے چلے جاتے ہیں، ہم نجکاری کے خلاف نہیں ہیں، پاکستان سٹیل کے ملازمین کو اچھا پیکیج مل رہا تو اچھی بات ہے، زلفی بخاری کا نجکاری کے عمل میں شامل ہونا سوالیہ نشان شازیہ مری نے کہا کہ وزیر اعظم کے پہلے اور حالیہ بیانیے میں تضاد ہے، اس بیانیے کے دوران جو ہیلتھ کرائسز میں اضافہ تو ہوا مکر کوئی ازالہ نہیں ہوا۔ نوشین حامد نے کہا کہ جب وبا آئی تو چار اب 160لیبارٹریاں کام کررہی ہیں، ہم 46ہزار ٹیسٹ روزانہ کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف ایک بار پھر حکومت پر برس پڑے اور کہا ہے کہ کیا ملک میں کوئی حکومت نام کی چیز ہے۔؟ کرونا سے متعلق 17 مارچ کو وزیراعظم نے کہا کہ کرونا عام سا فلو ہے آئے گا چلا جائے گا، مارچ میں پھر کہا کہ ملک لاک ڈاون کا متحمل نہیں ہو سکتا، لوگ بھوکے مر جائیں گے۔ اپریل میں کہا کہ خوش خبری دیتا ہوں کہ جیسی امید تھی کرونا کا ویسا زور نہیں ، مئی میں وزیر اعظم نے کہا جیسا لاک ڈائون چاہتا تھا ویسا نہیں ہوا، خدا کا شْکر ہے کہ دو سال بعد اس ایوان میں صدر تقریر پر بات کررہے ہیں، پوری قوم کرونا کی زد میں آچکی ہے، لاہور میں تین ملین لوگ کرونا سے متاثر ہیں، پوری قوم حکومت کے نہیں اللہ کے رحم وکرم پر ہے، سب سوچنے پر مجبور ہیں۔ کیا گورننس یا حکومت نام کی کوئی چیز ہے ، دور دور تک کامیابی کا کوئی نام ونشان نہیں۔ وزراء اپنے آپ اور اوگرا سے پوچھیں کہ پٹرول کیوں غائب ہے، آپ کہتے ہیں اپوزیشن نے زائرین کی بات کی، اب بات ہم پر مت ڈالیں، یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو خود آپ نے اپوزیشن کو بتائے۔ خزاں کے پتوں کی طرح کرونا سے انسانی جانیں جائیں گی ۔ گورننس اور حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ پبلک سیکٹر کے جنازوں کی نجکاری ہو، ہم پی آئی اے اور اس کے ہوٹلوں کی نجکاری کے بھی خلاف نہیں ہیں۔ ضرور نجکاری کریں حکومت مگر حالات کی بہتری کا انتظار کرے تاکہ اچھی قیمت مل سکے۔ آج آپکی حکو مت کو بھی دو سال ہو گئے ہیں اپنی کارکردگی کا ہمارے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ پوری دنیا پٹرول خریدار ڈھونڈ رہی ہے اور ہمارے ملک میں خریدار پٹرول ڈھونڈ رہے ہیں۔کرونا سے متعلق کمیٹی کو باختیار بنایا جائے۔ شازیہ مری نے کہاکہ وزیر اعظم نے اس سیشن میں آنا پسند نہ کیا، وزیر اعظم کا شروع میں کہنا تھا یہ وائرس ایک قسم کا فلو ہے، اب کہتے ہیں عام لوگ یہ سمجھ رہے ہیں یہ صرف فلو ہے، چند ہفتوں میں وزیر اعظم کے پہلے اور حالیہ بیانیے میں تضاد آگیا، ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ پاکستان اپنے این 95ماسک بنانے کی پوزیشن میں آچکا ہے، مفتی عبد الشکور نے کہاکہ کرونا صرف پاکستان کا معاملہ نہیں ہے پوری دنیا کا ہے، ہم نے کرونا کی وجہ سے ختم النبوت کانفرنس کو موخر کیا ،جمعیت نے کرونا سے بچاو کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر کام کیا ،پارلیمانی ڈاکٹر بابر اعوان نے کہاہے کہ پاکستان واحد خوش نصیب ملک ہے جہاں کرونا وائرس کی صورتحال میں غذائی اجناس کی فراہمی برقرار رہی پارلیمنٹ قانون سازی کرکے صورتحال بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے نئے قوانین کا مقصد اداروں کی مضبوطی ہے ‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام تک پہنچنے میں رکاوٹ بننے والوں کا حکومت میں کوئی ہمدرد نہیں‘ وزیر اعظم کی ہدایت ہے کہ مہنگائی میں کمی کے لیئے ہر ممکن اقداما ت اٹھائے جائیں یہ کرپشن کا احتساب ہوگا۔ چینی مافیا کے خلاف کارروائی کا آغاز وزیراعظم عمران خان کا کریڈٹ ہے‘ ماضی میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر مفادات کے ٹکرائو کا قانون پاکستان میں نافذ کیا جائے‘ وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ سید فخر امام نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبوں اور کاشتکاروں کے ساتھ مل کر ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے آپریشن کر رہی ہے‘ نیشنل لوکسٹ کنٹرول سنٹر اسلام آباد میں قائم کردیا گیا ہے جس میں این ڈی ایم اے‘ وزارت قومی غذائی تحفظ اور اینٹمالوجسٹ شامل ہیں‘ ٹڈی دل سے ہونے والا نقصان پاکستان اور ملک کے عوام کا ہے‘ وفاق اور صوبائی حکومتوں‘ کاشتکاروں اور شہریوں کی کوآرڈینیشن اور تعاون کے بغیر اس آفت سے نہیں نمٹا جاسکتا‘ ٹڈی دل کے خطرے سے نمٹنے کے لئے حکومت کو آئندہ سال کے بجٹ میں 20 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دیں گے۔
اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان) قومی اسمبلی اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدرات میں ہوا تو ہر پارلیمنٹرین کو مناسب وقت دیئے جانے کے باوجود شکوہ رہا کہ اسے بولنے کے لیے وقت نہیں دیا جارہا، اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمنٹرین کی جانب سے حکومتی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان گڈ گورننس اور حکومتی کامیابیوں کی پرانی باتیں دہراتے رہے مگر ایوان کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آئے۔ ایوان میں بجٹ، کرونا وبائ، احساس ریلیف پروگرام، مہنگائی ، بے روزگاری، سٹیل ملز نجکاری اور اس کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے افراد، چینی سکینڈل، پٹرول ، کراچی طیارہ حادثہ ،ٹڈی دل حملہ پر گرما گرم بحث کی گئی ۔ ایم کیو ایم کے اقبال محمد علی نے سٹیل ملز کے معاملے پر واک آوٹ کیا،ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سے سٹیل مل نہیں چل رہی تو وہ سندھ حکومت کو دے دی جائے،سٹیل مل کی ہزاروں ایکڑ اراضی حکومت سندھ کی ہے۔مشیر پارلیمانی ڈاکٹر بابر اعوان نے وزارت خزانہ کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ 2018رپورٹ پیش کی ،ایوان میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے ایک دوسرے پر شاعرانہ طنز کیے گئے۔ عبدالقادر پٹیل نے بابر اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے شعر سنایا تو بابر اعوان نے بھی شاعرانہ انداز میں قادر پٹیل کو جواب دیا جبکہ پارلیمانی سیکرٹری عالیہ حمزہ نے بھی اپنی شاعری میں اپوزیشن کو نشانہ بنایا۔ عالیہ حمزہ نے کہا کہ اپوزیشن حکومت پر اعتراض کر رہی ہے کہ کرونا پر وزیراعظم کچھ نہیں کر سکے، اپوزیشن اپنی عینک بدلے تو ان کو حکومت کا امدادی ریلیف پروگرام نظر آئے۔