مزید ریلیف، نیا ٹیکس نہیں لگے گا، کرونا معیشت کیلئے شدید جھٹکا: اقتصادی سروے
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کرونا کی وجہ سے ملک کی معیشت کو تین ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، ڈی پی گروتھ منفی 0.4 فی صد رہی، صنعت، ہول سیل اور ریٹیل، ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ کی گروتھ بھی منفی ہو گئی۔ حکومت کی کوشش ہے کہ بجٹ میں نئے ٹیکس نہ لگائے جائیں اور موجودہ ٹیکسوں پر نظر ثانی کر کے ان میں کمی کی جائے۔ آئی ایم ایف اس لئے نہیں بنایا گیا کہ وہ پاکستان کے لوگوں پر خصوصی ظلم کرئے۔ وہ ایک بینک کی طرح ہے جو چاہتا ہے کہ معیشت کو ایسے چلائیں کہ قرض کو واپس کریں۔ کرونا سے قبل ملک کی معیشت کے انڈی کیٹرز بہت بہتر تھے۔ موجودہ حکومت کو بحران ورثے میں ملا، 20ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرکے ہم 3 ارب ڈالر تک لے آئے۔ باہر کے قرضوں کو خوش اسلوبی سے واپس کیا گیا۔ ملک کے ترسیلات میںکمی کا خدشہ ہے۔ مشیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار مالی سال2019-20میں ملک کی معاشی کارکرگی کے بارے اقتصادی سروے کا اجراء کرتے ہوئے کیا ،اس موقع پر وفاقی وزیر اقتصادی امور خسرو بختیار،مشیر تجارت عبد الرزاق ڈائود ،سیکڑٹری خزانہ ،چئیرمپرسن ایف بی آر،احساس پروگرام کی سربراہ ثانیہ نشتر اور دوسرے اعلی حکام بھی موجو تھے ، خسرو بختیار نے کہا کہ بیرونی قرضے 76.5ارب ڈالر ہیں ،2013سے2018میں یہ48ارب سے73ارب ڈالر پر گئے،اس میں ذیادہ قرضہ کمرشل تھا ،ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اس سال کے آخر میں18.5ارب ڈالر ہو جائیں گے ،آئندہ بجٹ میں زراعت کے لئے300ارب روپے رکھے گئے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے، صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے اور خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات کی شرح صفر رہی جبکہ گزشتہ حکومت کے آخری 2 سالوں میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16-17 سے گر کر 9 کے قریب پہنچ گئے تھے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر سستا رکھا گیا جس کے باعث درآمدات، برآمدات سے دگنی ہوگئیں اور ان تمام چیزوں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے کہ ہم اپنی معیشت کو اچھے انداز میں چلا سکتے اور اس وقت میں ہمارے قرضے بڑھ کر 25ہزار ارب روپے ہو چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قرض اور واجبات کو بھی ملایا جائے تو ہمارے قرضے تقریباً 30ہزار ارب یا 30 کھرب روپے بن چکے تھے۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں ہم بیرونی اکاؤنٹ میں ڈیفالٹ کی جانب دیکھ رہے تھے، ہمارے اخراجات آمدن سے کافی زیادہ تھے۔ بنیادی طور پر ہم اپنی حکومت میں جو شرح نمو حاصل کررہے تھے وہ باہر سے قرض لے کر ملک کے اندر خرچ کررہے تھے تو ایسی صورتحال میں سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ ہم مزید وسائل یعنی ڈالرز کو متحرک کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت نے کافی کوششں کی اور کچھ ممالک سے قرض اور موخر شدہ ادائیگیوں پر تیل حاصل کیا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6 ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے ٹیکسز کو بہتر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے اپنے کاروباروں کو مراعات دینے کے لیے کاروباری شعبے کے لیے گیس، بجلی، قرضے یہ تمام چیزیں حکومت نے اپنی جیب سے پیسے دے کر سستے کیے۔'کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73فیصد کمی کی گئی'انہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم نے اپنے بیرونی طور پر معیشت کو درپیش خطرات سے نمٹا اور ورثے میں ملنے والے 20مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ پہلے سال اور خصوصی طور پر اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 73فیصد کمی کی گئی۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ دوسری اہم چیز ہے کہ رواں سال اور پچھلے سال مجموعی طور پر کہ 5 ہزار ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کیے گئے۔نہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم چیز ہے کہ ایک ملک ماضی میں لیے گئے قرضے چاہے وہ کتنے ہی بڑی تعداد میں کیوں نا ہوں، وہ واپس کرے۔ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی موجودہ حکومت نے ماضی کے قرضوں کے بوجھ کوواپس کرنے کے لیے قرضے لیے اور ماضی کے قرضوں کی مد میں 5 ہزار ارب روپے واپس کیے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ تیسری بہت اہم چیز جو اس سال ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس سال بہت سخت انداز میں حکومت کو اخراجات کو کنٹرول کیا اور یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں ہوا ہو کہ ہم نے اس انداز میں کنٹرول کیا کہ پرائمری بیلنس قائم ہوگیا ہے یعنی ہمارے اخراجات، آمدن سے کم ہوگئے جس سے پرائمری بیلنس سرپلس ہوگیا یہ شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ہوا ہو۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ میں اس کے لیے فنانس سیکرٹری اور وزارت خزانہ کی پوری یم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور سب سیبڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نے اس شعبے میں قیادت دکھائی اور جنرل باجوہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ ہم نے فوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔سٹیٹ بینک سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا'انہوں نے کہا کہ ایک فلسفہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے اخراجات کم کر کے عوام کے لیے جتنے زیادہ پیسے ہوں وہ دیں لہذا ہم نے پورا سال اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایک ٹکا بھی قرض نہیں لیا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے پوراسال کسی بھی ادارے کو کسی بھی حکومتی وزات کو ٹکا بھی اضافی گرانٹ نہیں دی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کے پیسے کو بہت احتیاط سے خرچ کیا جائے اور اس کا اثر آپ نے دیکھا کہ کورونا وائرس آنے سے پہلے ہم پرائمری سرپلس کے ایریا میں چلے گئے تھے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات دیں، ان کے لیے انفرااسٹرکچر یعینی سڑکیں، پْل، ہسپتال بنائیں اور جتنا ممکن ہو باہر کی چیزوں ور باہر کی دنیا پر انحصار کم کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکسز میں بہت اچھی کامیابی حاصل کی اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے ٹیکسز میں 17فیصد اضافہ ہوا، ہم نے درآمدات میں کمی کی تاکہ ڈالر کو بچائین تو درآمدات کی کمی کی وجہ سے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی ہوئی ورنہ ٹیکسز بڑھنے کی رفتار ایف بی آر میں تقریبا 27فیصد جا رہی تھی۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اب ٹیکسز میں اطمینان بخش اضافہ ہوا ہے، اخراجات میں زبردست کمی اور نظم و ضبط آیا ہے، اور اپنے تعلقات تجارت کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ برقرار رکھے اوربرآمد کنندگان کی مدد کی تاکہ وہ اپنی برآمدات بڑھائیں۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت کی پانچویں اور شاید ایک بہت بڑی کامیابی یہ رہی کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے کہ ہر چیز کا محور پاکستان کے عوام ہیں اور وہ عوام جو کمزور طبقے سے ہیں، جنہیں بھلا دیا گیا ہے اور جن کے لیے ماضی میں بہت کم کام کیا گیا۔ نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کم بجٹ کے باوجود وزارت سماجی تحفظ کا احساس بجٹ دگنا کیا اور اسے تقریباً 100 ارب سے 192 ارب روپے کردیا گیا اور یہ رقم ایسے سوشل سیفی نیٹس کے لیے رکھی کہ عام آدمی تک یہ پیسے اچھے انداز میں پہنچائے جائیں اور اس طریقے سے پہنچائے جائیں کہ ساری دنیا دیکھے کہ اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ احساس پوگرام میں کوئی علاقائی مداخلت یا تعصب نہیں، کوئی مذہبی تفریق بھی نہیں اور اس کی ترجیح پاکستان کے وہ لوگ ہیں جو غرب یا کم آمدنی والے لوگ ہیں، اسی جذبے کی بنیاد پر ہمارے قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع تھے ان کے لیے بھی 152ارب روپے رکھے گئے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ ہمارے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں حکومت کی جانب سے 701 ارب روپے اور نجی شعبے سے منصوبے کے لیے 250 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب حکومتی آمدنی بڑھانے کے لیے جو نان ٹیکس ریونیو ہیں جو بجٹ میں ایک ہزار ایک سو ارب تھے، اس کو ہم نے سرپاس کیا اور وہ بڑھ ایک ہزار 600 ارب کی سطح تک پہنچے، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا، یہ سب چیزیں ہم نے کوروناوائرس کے آنے سے پہلے حاصل کیں، پھر کورونا وائرس آیا اور سا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی'مشیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیش گوئی ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کی آمدن میں 3 سے 4 فیصد کمی آئے گی، اس سے خصوصی طور پر ترقی پذیر ممالک متاثر ہوں گے کیونکہ ان کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس سے پاکستان کی ترسیلات زر بھی متاثر ہوں گی کیونکہ جو لوگ خلیجی ممالک، امریکا اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں، ان کی آمدنی کم ہو گی، یا وہ بیروزگار ہوں گے تو ہمارے پاس کم پیسے آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کی طلب کم ہوتی ہے تو ہماری برآمدات بھی منفی طور پر متاثر ہوں گی او ایسا ہوا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ملک میں اقصادی طور پر استحکام پیدا کیا تھا، اس کے نتیجے میں وہ بھی متاثر ہوا اور پاکستان کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا گیا کہ اس کی وجہ سے کوئی تین ہزار ارب کا نقصان پہنچا۔'ملکی آمدن میں 3 سے3.5 فیصد نقصان ہوا'ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ کوروناکے بارے مں کوئی بھی چیز یقین سے کہنا مشکل ہیکیونکہ مختلف لوگ مختلف طریقوں سے اندازے لگارہے ہیں کہ کس چیز پر کتنا اثر ہوا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اس کے ساتھ ہماری برآمدات بھی متاثر ہوئیں، ترسیلات زر زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن اب متاثر ہونے جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کے ایف بی آر کی ٹیکس محصولات اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو 4ہزار 700ارب تک پہنچ سکتی تھی لیکن وہ اب 3ہزار 900 تک بمشکل پہنچ رہی ہے اس طرح ایف بی آر کوٹیکس محصولات کی مد میں 850 سے 900 ارب کا نقصان ہوا۔'ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قدرتی امر ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس مشکل وقت میں اپنی کاروباری برادری پر ٹیکسز کی گرفت مضبوط کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ان تک قرضے یا نقد رقم پہنچائیں تاکہ ملک میں جو کورونا کی وجہ سے سکڑتی ہوئی معیشت بن رہی ہے اس سے اچھی طرح نبردآزما ہو سکیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے معیشت کو کرونا وائرس سے اچھے انداز میں بچانا ہے اور اپنے لوگوں کوبچانا ہے اور اس کے لیے دو طرح کے پیکج دیے گئے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ ایک ہزار 240ارب روپے کا ایک پیکج دیا گیا اور دوسری جانب سٹیٹ بینک کو سبسڈیز بھی دی گئیں، ان کے ذریعے مختلف پروگراموں پر عملدرآمد کرایا گیا تاکہ لوگوں خصوصاً چھوٹی کاروباری کمپنیوں کو پیسے میسر ہوں تاکہ وہ اپنے لوگوں کو کمپنی کے پے رول پر برقرار رکھ سکیں۔ مشیر خزانہ نے کہ ان پیکجز کے تحت ایک کروڑ 60لاکھ خاندانوں کو رقم دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ان کا کروبار زندگی بھی چلے ور ان کی حالت معاشی طور پر بالکل تباہ نہ ہو۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اب تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دیے جا چکے ہیںجو شاید دنیا کی تاریخ میں ایک نمایاں چیز ہے کہ اتنے اچھے انداز میں دیے گئے ہیں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ عام پاکستانیوں کو بلا امتیاز یہ پیسے دیے گئے۔ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی سکیمز لائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 280 ارب روپے کی گندم خریدی اور کسانوں اور زراعت کے شعبے میں روپے پہنچائے گئے، یہ ہر سال حکومت کی پالیسی ضرور ہے لیکن اس سال اس تعداد کو پچھلے سال کے مقابلے میں دگنا کیا گیا۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ بھی یقینی بنایا گیا کہ گندم خریدی جائے تاکہ جب کسانوں کے ہاتھ میں یہ پیسے آئیں گے تو وہ اپنے ضروریات زندگی بھی پورے کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ٹریکٹر چاہیے، انہیں گھر بنانا ہے، مویشی خریدنے ہیں یا سرمایہ کاری کرنی ہے تو وہ کریں جس سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں اور انٹرپرائزز کے بجلی کے 3 ماہ کے بل حکومت ادا کرے گی تاکہ ان کے کاروبار کی بحالی میں مدد کر سکے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں 50 ارب روپے کی اسکیمز لائے تاکہ ویاں کھاد کی قیمتیں کم ہوں اور ٹڈی دل کا مقابلہ کیا جا سکے اور کسانوں کومراعات دی جا سکیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ 50 لاکھ کے بجائے ایک کروڑ دکانوں تک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے۔کم آمدن والے افراد کے ذاتی گھروں میں مدد کیلئے 30 ارب روپے رکھے گئے'انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کا وژن ہے کہ کم آمدن والے افراد کو گھر بنانے میں مدد کی جائے اور اس کے لیے 30ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ خود ایک گھر کے مالک بن سکیں اور اس میں ٹیکسز کی چھوٹ بھی دی گئی۔وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کے لیے ایک پیکج دیا گیا جس میں فکس ٹیکس کی بنیاد پر ٹیکسز دییے گئے تاکہ ایف بی آر کی طرف سے ہراساں نا کیا جاسکیاور ٹیکسز کی شرح کو بھی کافی حد تک کم کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ جو سال مکمل ہورہا ہے اس میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے، صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے اور خدمات کے شعبے میں یہ شرح منفی 3.4 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہی تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔انہوں نے کہا کہ کرونا کے نقصانات کو اصل تخمینہ لگانا ابھی ممکن نہیں ہے،30 جون کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے گا ،انہوں نے کہا کہ حکومت نیجی ڈی پی گروتھ کے بارے میں سچ سامنے رکھا ہے ، مالی سال کے9 ماہ کے بعد کرونا آ گیا جس کے بعد معاشی اعداد وشمار میں کمی ہوئی ہے ،انہوں نے کہا ڈیٹ جی ڈی پی کے88فی صد کے قریب ہے ،قرضوں کو واپس لرنے کے لئے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں،اس سال5ہزار ارب کے قرضے واپس کئے اور آئندہ سال بھی3 ہزار ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2020ء کے لیے زراعت میں 2.67، صنعت میں منفی 2.64 فیصد اور خدمات کے شعبے میں منفی 0.59 نمو کی بنیاد پر ملکی آمدن کی شرح نمو کا تخمینہ 0.38 فیصد ہے،ثانیہ نشتر نے کہا کہ احساس پروگرام میں مالی امداد کی کوریج کو ایک کروڑ 60لاکھ افراد تک بڑھایا جائے گا، وزیر اعظم نے اس بارے میں ہدایت کی ہے، مشیر تجارت نے کہا کہ ٖفروری میں ملک کی برامدات کی گروتھ 14 فی صد تھی جو کرونا کے بعد مئی میں منفی34فی صد ہو گئی ۔
اسلام آباد(عترت جعفری+نوائے وقت رپورٹ)اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے روں مالی سال کے دوران1149 ارب روپے کی ٹیکس کی رعایات فراہم کیں۔سب سے زیادہ ٹیکس مراعات سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئیں جو518 ارب روپے ہیں۔ انکم ٹیکس کی مد میں 318 ارب روپ ہے ، کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 253 ارب روپے کی رعایت فراہم کی گئی۔ انکم ٹیکس میں 212 ارب روپے کی رعایت مجموعی آمدن پر ٹیکس سے استثنیٰ دے کر فراہم کی گئی ۔ سیلز ٹیکس میں زیرو ریٹنگ فراہم کر کے 13 ارب روپے کی ٹیکس کی مراعات افراد کو فراہم کی گئیں ۔ پاکستان جس کا اس سال ریونیو 2900 ارب روپے ہوگاوہاں پر 1149 ارب روپے ٹیکس مراعات دے کر ضائع کر دئیے گئے۔ ملک کے ذمہ پبلک ڈیٹ35 ہزار 207 ارب روپے ہو گیا۔ یہ قرضہ ایک سال پہلے 32 ہزار 708 ارب روپے تھے ۔ موجودہ حکومت کے دور میں ملک کے ذمہ قرضے تین ہزار ارب سے بڑھ گئے ۔ اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے اقتصادی اصلاحات کے پروگرام کو عالمی مالیاتی ادارں نے سراہا ۔جولائی تا اپریل کے عرصہ میں کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 70.8 فیصد کم ہوا جی ڈی پی کے 1.5 فیصد کے مساوی ہوا۔ ملک کی برآمدات میں کورونا کے باعث کمی واقع ہوئی۔ مالی سال کے دوران گندم کی پیداوار 24.9 ملین ٹن ہوئی ، چاول کی 7.4 ملین ٹن ، گنے کی پیداوار 66.8 ملین ٹن رہی۔ تمباکو کی پیداوار میں 9.7فیصد اضافہ ہوا ، بنکوں نے زرعی شعبہ کو 912ارب روپے کے قرضے دئیے۔ کھاد کی پیداوار5.8 فیصد بڑھی ۔مینوفیکچرنگ کی شرح نمو 5.4 فیصد منفی ہوئی ۔ ایف بی آر نے عبوری طور پر 3594 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا۔ مالی سال کے دوران مئی تک اوسط افراد زر 10.9 فیصد رہا۔ملکی برآمدات جولائی تا اپریل 18.4. ارب ڈالر رہیں۔ ترسیلات زر 18.8 ملین ڈالر رہی، عالمی معاشی سست روی کی وجہ سے تیل کی قیمتیں گریں جس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوا۔ ملک بھر میں قومی سطح پر طلباء کے داخلوں کی تعداد 53.6ملین ہوجائے گی۔حکومت نے تعلیم پر اخراجات کم کر دئیے ہیں۔ سال 2019 ء میں یہ جی ڈی پی کے 2.3 فیصد تھے جو اس سے گزشتہ سال میں 2.4 فیصد تھے۔ پانچ جو ن تک ملک کے اندر کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 89 ہزار رہی جبکہ اس سے اموات کی شرح 2.1 فیصد رہی۔ ملک کی آبادی کا تخمینہ 211.1 ملین لگایا گیاہے جو اس سے قبل 207.7 ملین تھی۔ سی پیک کے منصوبوں سے 85 ہزار ملازمت کے مواقع پیدا ہوئے۔پاکستان میں 39 قومی شاہراہیں اور سڑکوں کی کل لمبائی دو لاکھ تریسٹھ ہزار کلومیٹر سے زائد ہے۔ ملک میں ہر ماہ 70 لاکھ سم کارڈ اور دس ہزار بنک کارڈ درآمد ہوتے ہیں۔ ٹیلی کام کے شعبے نے اس سال 173 ارب کا ٹیکس دیا۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے وزیراعظم کو قومی اقتصادی سروے رپورٹ پیش کر دی۔ وزیراعظم عمران خان سے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ملاقات کی جس میں ملک کی معاشی صورتحال اور آئندہ بجٹ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر مشیر خزانہ نے اقتصادی سروے برائے مالی سال 2019-20ء کی کاپی وزیراعظم کو پیش کی۔ حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ کرونا مستحکم ہوتی معیشت کیلئے بڑا دھچکا ہے، پورے ملک کی آمدن تقریباً 0.4 فیصد کم ہوگی، برآمدات اور ٹیکس کلیکشن بھی متاثر ہوئے، صنعتی شعبے کی گروتھ منفی 2.6 فیصد، زراعت کی شرح نمو محض 2.7 فیصد رہی، 20 ارب خسارے کو 3 ارب تک لے آئے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے اقتصادی سروے سے متعلق نیوز بریفنگ دیتے ہوئے کہا فوج کے بجٹ کو منجمد کیا۔ آرمی چیف کے بھی مشکور ہیں۔ ٹیکسز میں کامیابی حاصل کی، 17 فیصد اضافہ ہوا، پورا سال سٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا، کوشش کی لوگوں کو بنیادی سہولتیں دیں۔ کوشش ہے لوگوں کی مدد کریں، ان تک امدادی رقم یا قرض پہنچائیں، کرونا کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں۔ دوران مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 283 ارب ڈالر سے کم ہوکر 263 ارب 54 کروڑ ڈالر پر آ جائے گا۔ ذرائع کے مطابق رواں مالی سال فی کس آمدن 1358 ڈالر تک رہے گی، گزشتہ سال فی کس آمدن 1516 ڈالر تھی۔ اقتصادی سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے سکولوں میں 29 لاکھ بچے داخل ہوئے جبکہ 4300 نئے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا سکول جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر 5 کروڑ 39 لاکھ ہو گئی سال 2017-18ء میں سکول جانے والے بچوں کی تعداد 5 کروڑ 10 لاکھ تھی۔ گزشتہ مالی سال تعداد بڑھ کر 5 کروڑ 39 لاکھ ہو گئی۔ تعلیمی اداروں کی تعداد 2 لاکھ 62 ہزار سے 2 لاکھ 66 ہزار 300 ہو گئی۔ ساٹھ ہزار نئے اساتذہ آنے کے بعد تعداد 18 لاکھ 30 ہزار ہو گئی۔ مالی سال 2020-21 کا بجٹ آج جمعہ کو پیش کر دیا جائے گا۔ حکومت نے پہلے ہی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ بجٹ کا سائز 7.4ٹریلین روپے سے زائد ہو گا، جس میں 3ہزار ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لئے رکھے گئے ہیں۔ ذارئع کے مطابق مالی خسارہ کا تخمینہ ساڑھے آٹھ فی صد لگایا گیا ہے جس کے لئے 3 ہزار ارب روپے کی باروئنگ بھی کی جائے گی۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات آئندہ سال بھی موجودہ سطح پر برقرار رہیں گے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر اخراجات میں کمی کی جائے گی۔ ایف بی آر کا ہدف 4950 ارب رکھے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ سال کے میزانیے میں دفاعی بجٹ 1400ارب روپے تک رکھے جانے کا امکان ہے۔ پی ایس ڈی پی 650ارب روپے تک ہی محدود رہے گا۔ سرکاری ملازمین کے لئے ریلیف کا امکان بھی موجود ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ کابینہ آج کرے گی۔ مشیر خزانہ یا وفاقی وزیر صنعت وپیداوار قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کریں گے۔ اس کا فیصلہ بھی وزیراعظم کریں گے۔ بجٹ کی دستاویزات سینٹ میں پیش کی جائیں گی جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس 4بجے طلب کیا گیا ہے۔ سینٹ کا اجلاس 5بجے شام کو ہوگا۔ اس سے قبل وزیر اعظم کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو گا، جس میں بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔ بجت میں سب سے بڑا ریلیف مینوفیکچرنگ سیکٹر کو دیا جا رہا ہے جس کے خام مال کی زمرے میں آنے والے سینکڑوں آئٹمز پر ڈیوٹی کا ریلف دیا جائے گا۔ سامان تعیش، سیگریٹ وغیرہ پر ٹیکس بڑھنے کا امکان ہے، تمباکو پر ٹیکس نہیں بڑھایا جا رہا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی بحالی میں بجٹ اہم کردار ادا کرے گا۔ مالی سال کے دوران حکومت بانڈز بھی جاری کرے گی۔