ریلوے اتنا کرپٹ سوچ نہیں سکتے ، غیر ضروری ، نااہل ملازمین کی چھانٹی کی جائے: چیف جسٹس
اسلام آباد(چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ نے ریلوے میں مکمل اوور ہالنگ کا حکم دیتے ہوئے 76ہزار ملازمین میں سے غیر ضروری اور نااہل ملازمین کے چھانٹیوں کا بھی حکم دیدیا عدالت نے ایک ماہ میں ریلوے سے متعلق آپریشن اور ملازمین کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی چیف جسٹس نے کہا ریلوے کا پورا محکمہ اتنا کرپٹ ہے کہ سوچ بھی نہیں سکتے، ریلویز ملازمین کی سروس مستقلی کے حوالے سے دائر مختلف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی سیکرٹری ریلوے عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹی ایل اے میں کتنے ملازمین ہیں؟ سیکریٹری ریلوے نے بتا یا کہ ٹی ایل اے میں 2712 ملازمین ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ریلوے ملازمین کو مختلف ادوار میں ریگولر کرنے کیلئے قانون سازی کی گئی، سیکریٹری ریلوے نے بتا یا کہ ٹی ایل کے ملازمین کو تنخواہ لوکل گورنمنٹ دیتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا تو پھر یہ ملازمین ریلوے کے کیسے ہوئے، چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاآج آپ کا کام یہاں سے فارغ کرتے ہیں، آپ کے دور میں ریلوے کے کتنے حادثے ہوئے ہیں، آپ سے ریلوے نہیں چل رہی ہے،چھوڑ دیں ریلوے آج سے آپ سیکرٹری ریلوے نہیں ہیں، آپ کے انجن اور ڈبے چل ہی نہیں رہے ہیں، پرسوں جو نقصان ہوا بتا دیں اس ذمہ داری کس کی ہے، سیکریٹری ریلوے نے کہا میں فیڈرل ملازم ہوں کہیں اور چلا جاں گا، چیف جسٹس نے کہا ٹرین یا جہاز کا حادثہ کوئی مذاق نہیں، 6 ماہ میں کتنے حادثے ہوئے اور کتنا نقصان ہوا، آپ سمجھتے ہیں کرسی میں بیٹھ کر کام کریں، فیلڈ پر جا کر اپنے ملازمین کو دیکھیں، ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ریلوے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں، حکومت آپ کو آئے دن 50 ملین کا گرانٹ دیتی ہے، چیف جسٹس نے سیکریٹری ریلوے سے استفسار کیا ریلوے میں ٹوٹل کتنے ملازمین ہیں سیکریٹری ریلوے نے بتا یا کہ76 ہزار ملازمین ہیں، اور 142 مسافر ٹرینیں اور 120 گڈز ٹرینیں چل رہی ہیں، تاہم اس وقت کرونا کی وجہ سے 43 مسافر ٹرینیں فعال ہیں، چیف جسٹس نے کہاآپ نے 76 ہزار ملازمین رکھے ہیں ریلوے کا نظام چلانے کیلئے تو دس ہزار کافی ہیں ریلوے کی ساری فیکٹریاں اور کام بند پڑا ہوا ہے تو یہ ملازمین کیا کر رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاریلوے کے کمپیوٹرز پر ڈسٹ پڑا ہوا ہے، پریس میں آرہا ہے کہ وزیر اعظم ریلوے میں کوئی ریفارم کر رہے ہیں، سیکریٹری ریلوے نے کہا6 پوائنٹس پر ریفارم کر رہے ہیں76 ہزارملازمین کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے تقریر نہ کریں ہمیں سب پتہ ہے ریلوے میں کیا ہورہا ہے، ریلوے میں یا تو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے،76ہزار ملازمین سے ریلوے کھبی منافع نہیں دے سکتی، ہمیں ٹی ایل اے ملازمین کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ دیں،کل کی سماعت میں ہمیں کسی نے نہیں بتایا کہ کہ لوکل گورنمنٹ ادائیگی کرتی ہے، ہم نے آج اسی وجہ سے سیکرٹری ریلوے کو بلایا تھا، عدالت نے سیکریٹری ریلوے کی جانب سے دیے گئے بیان پر عدم اطمنان کا اظہارکرتے ہوئے عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ ریلوے فوری طورپراپنا اصلاحاتی عمل شروع کریں۔