• news
  • image

حکومت اور اقتدار

پروفیسر ڈورتھی سٹی آف کینبرا (آسٹریلیا) کے ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل پالیٹکس کی سربراہ تھیں۔ طلبہ کو اچھوتی قسم کی اسائمنٹس دینا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ مختلف قومیتوں پر مشتمل کلاس سے ایک دن کہنے لگیں کہ آج آپ کو ’’حکومت اور اقتدار کے متعلق میرا تصور‘‘ My concept of rule and power پر ایک غیر روایتی سا مضمون لکھنا ہے، جو اوریجنل ہو، آپ کی ذاتی سوچ کا پرتو ہو‘ آپ لوگوں کے قومی، سماجی اور مذہبی پس منظر کا عکاس ہو۔ موضوع سے متعلق دوسروں کی تھیوریز بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرا آج کا کالم میری اسی کلاس اسائمنٹ سے ماخوذ ہے۔ وہ اسائمنٹ جو کلاس میں بہترین قرار پائی تھی اور پروفیسر ڈروتھی نے بطور خاص کہا تھا کہ یہ سب اسلئے کیونکہ یہ سب سے مختلف ہے۔ اقتدار اور حکمرانی میں بلاکی کشش ہے۔ خلق خدا اس کے پیچھے باؤلی ہوتی ہے‘جیسے ملے اور جہاں ملے، منظور۔ اسی لئے تو وہ دوزخ میں حکمرانی والا محاورہ ایجاد ہوا۔ دراصل ہم جنسوں میں ممیز ہونا بھلا لگتا ہے اور ایگو کی فربہی کا سبب بنتا ہے۔ سکندر اعظم اپنی مختصر سی ریاست مقدونیہ سے تسخیر جہاں کا عزم لئے نکلا تو راجدھانی میں موجود اہل دانش اسے بستی سے باہر تک رخصت کرنے آئے۔ اور استاد نے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کہا تھا برخوردار! اچھی بھلی آرام کی زندگی چھوڑ کر ان دیکھی دنیاؤں کی جانب کیوں جا رہے ہو؟ سکندر کا جواب سننے لائق ہے۔ بولا استاد محترم! آپ ہی نے تو بتایا تھا کہ انسان کو زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اُسے کسی بڑے مقصد کیلئے استعمال کرنا چاہیئے۔ مقدونیہ میں رہتے ہوئے بھی زندگی تو گزر جائیگی۔ مگر کوئی بڑا مقصد حاصل نہ کر پاؤں گا۔ استاد نے گھوڑے کی گردن پر تھپکی دی اور دعائیہ انداز میں کہا، جاؤ برخوردار! تمہارا عزم صمیم تمہارے لئے راہیں کھولتا جائیگا۔ جہانداران عالم نے اسے اپنے اپنے انداز میں دیکھا ہے۔ مغل تاجدار اورنگزیب عالمگیر نے کہا یہ مصیبت میں نے خود پالی ہے۔ ورنہ فقیر کے لئے کلاہ دوزی اور قرآن نویسی ہی کافی تھی، مگر تخت نشین نہ ہوتا تو مصلوب ہو جاتا۔ اس کے جد امجد اور برصغیر میں مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کے بقول ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔‘‘ ہو سکتاہے زندگی کے بار ے میں اس کی یہی سوچ ہو‘ مگر حکمرانی میں ایسی سوچ رکھنے والا فرغانہ کی وادی سے اٹھ کر جنوبی ایشیاء میں ایک عظیم الشان امپائر کی بنیاد ہرگز نہیں رکھ سکتا تھا۔ اور نہ ہی دو آدمیوں کو بغلوں میں دبائے قلعہ آگرہ کی فصل پر دوڑ سکتا تھا۔ دراصل قدرت کی فیاضیوں اور نعمتوں کو دیکھ کر یہ شعر نما جملہ اسکی زبان پر آ گیا ہو گا۔ ایک طرح کا اظہار تشکر کہ قدرت کی فیاضیاں اور نعمتیں بے بہا اور زندگی اس قدر مختصر کہ دل کی حسرتیں بھی پوری نہ ہو سکیں۔ پھر اس کا تدبر اور فہم اس درجہ کا کہ مقرب خاص فرید خان (بعد میں شیر شاہ سوری) میں اقتدار کی تڑپ بہت پہلے دیکھ لی تھی اور بیٹے ہمایوں کو اس سے محتاط رہنے کی نصیحت کی تھی۔
اقتدار اور حکمرانی کے بارے میں حضور سرور کونینؐ پیغمبر اسلام کا ارشاد مبارک فرمایا: حکومت و امارت طلب نہ کرو، بے طلب ملے گی تو خدا تمہاری مدد کرے گا۔ طلب کرو گے تو تمہارے لئے مذامت ہے، سوائے اس کے جو اس کا حق ادا کرے اور اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے ادا کرے۔ حضرت عمر فارقؓ خلیفہ بنے تو کسی نے پوچھا امیرالمومنین کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ فرمایا! ذمہ داری کے بوجھ تلے دبا جارہاہوں کیونکہ وجلہ کے کنارے کتا بھی پیا سا مر گیا تو ذمہ دار عمر ہی ٹھہرایا جائے گا۔
ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کے تایا ایڈورڈ ہشتم گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں تاج برطانیہ کے اس وقت وارث بنے جب امپائر میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ یار لوگ ان کی قسمت پر رشک کرتے تھے لیکن بادشاہ کو یہ سب کچھ ایک ادھیڑ عمر امریکی بیوہ مسز سمپسن کے مقابلے میں ہیچ نظرآیا۔ قانون آڑے آیا تو پلا جھاڑ کر تخت سے اتر آئے۔ خیر خواہوں نے اسے خلل دماغ کہا تو شہزادہ گویا ہوا کہ بادشاہت تو محض فریب نظر ہے‘ اسے کسی طور پر اپنی سویٹ ہارٹ پر ترجیح نہیں دے سکتا۔
محمد شاہ رنگیلے کی تخت نشینی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ نشے میں دھت شہزادے نے محل میں سرگرمی دیکھی تو وجہ پوچھی۔ جواب ملا کہ آپ کو بادشاہ بنایا جارہا ہے۔ شہزادے نے دوبارہ آنکھ موندلی اور بولا‘ ہمارا بادشاہت سے کیا لینا دینا ہمیں تو کنج عافیت‘ صحبت نازنیناں اور مے ناب مل جائے غنیمت ہے۔
سقراط کو بستی والوں نے مکھیا بنانا چاہا توبولا کہ اس فضول کام کیلئے میرے پاس وقت نہیں۔ میرے اپنے گائوں کے لوگ ایک مقامی بزرگ کی دیانت و پاکبازی سے بے حد متاثر تھے۔ بنیادی جمہوریت کا چلن ہوا تو لوگوں نے انہیں بی ڈی ممبر بنانے کی پیشکش کی۔ بولے‘ میں پاگل ہوں جو پوری بستی کی ذمہ داری اٹھا لوں۔ بچپن میں اپنے کانوں سے سنے ہوئے یہ الفاظ میرے ذہن میں ثبت ہوکر رہ گئے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ، کوئی مجھ سے پوچھے تو مجھے ذاتی طور پر نظام سقے کا فلسفہ حکومت بہت محظوظ کرتا ہے۔ ڈوبتے ہوئے بادشاہ کی جان بچا کر ایک دن کی بادشاہی پانے والے نظام سقے سے کسی نے پوچھا کہ ایک دن کی بادشاہت کا کیا کروگے؟ بولا ہم نشینوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی‘ انہیں مالا مال کر دوں گا۔ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مشکیزے کٹے، چمڑے کی اشرفیاں بنیں اور برادری میں تقسیم ہوئیں۔ تاریخ کا طالب علم ہوں یقین جانیے اس قدر پریکٹیکل اپروچ میں نے کسی حکمراں کی نہیں دیکھتی۔ اللہ کے نزدیک سب سے بڑی عبادت اسکی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک ہے اور افضل حکمران وہ جسکی صبحیں‘ جس کی شامیں اسی تگ ودو میں بسر ہوں۔
ہمارے حکمران بھی ریاست مدینہ کی تلاش میں ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی ضرورت نہیں‘ صرف ایک فرد یعنی حاکم وقت تن تنہا یہ معجزہ برپا کرسکتا ہے مگر لگن کا عالم یہ ہو کہ زندگی کا ہر ہر لمحہ خلق خدا کی خدمت اور فلاح میں صرف کرے۔ جناب خان صاحب آزمودہ ٹوٹکہ ہے، کرکے دیکھ لیجئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن