• news

اسلامی یونیورسٹی سکولز غیر قانونی ہونے کے باوجود بند نہ ہو سکے

اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل)صدر مملکت ، وفاقی وزیر تعلیم اور بورڈ آف ٹرسٹیز کی طرف سے اسلامی یونیورسٹی سکولز کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ریوڑ یوں کی طرح بانٹی گئی برانچز کو فوری بند کرنے کے واضح احکامات کے باوجود تاحال ملک بھر میں اسلامی یونیورسٹی سکولز کو بند نہیں کیا جاسکا ہے ،جامعہ کے ریسورسز کے استعمال کے باوجود فرنچائز کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن میں خرد برد کی اطلاعات ہیںجبکہ جامعہ کے متعدد افسران خود بھی سکولنگ جیسے نجی کاروبار ملوث ہیں، ریکٹر جامعہ بھی مری اور کوئٹہ کے بعد اسلام آباد میں ایک نیا سکول کھولنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کے 12 اپریل 2018کو منعقدہ اجلاس میں اس پروگرام کو رول بیک کرنے کی واضح ہدایات کے باوجود تاحال معاملہ بورڈ آف گورنر میں نہیں اٹھایا جا سکا ۔ جامعہ کے ریکٹر اور بورڈ آف گورنر کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے کہا کہ سکولزکو بند کر نے سے بہت سی قانونی کاررووائیاں شروع ہو جائیں گی بورڈ آف ٹرسٹیزسے درخواست کریں گے کہ سکولوں کو جاری رکھا جائے۔تفصیلات کے مطابق اسلامی یونیورسٹی حکام کی طرف سے مالی سال دو ہزار نو کے دوران اسلامی یونیورسٹی سکولز کے نام سے شروع کیا جانے والا پروگرام جامعہ کے اعلی حکام آمدن دینے کے بجائے الٹا گلے پڑ گیا ہے ۔اسکول فرنچائز کے نام پر حاصل کی جانے والی فیس بھی خرد برد کی اطلاعات ہیںجبکہ 1،1 فرنچائز خریدنے والے پرائیویٹ مالکان نے بغیر قانونی ضابطے پورے کئے از خود متعدد برانچز کھولنا شروع رکھی ہیں جس سے یہ منصوبہ جامعہ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اپنے مقاصد سے کوسوں دور جا چکا ہے ۔جامعہ کے گزشتہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس میں جس کی صدارت چانسلر جامعہ(صدر مملکت)نے بھی جامعہ کے اس پروگرام کو حدود سے تجاوز اور غیر قانونی قرار دیا گیا تھا 12اپریل 2018کو منعقدہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے تیرہویں اجلاس میں اس وقت کے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے اسلامی یونیورسٹی سکولز پروگرام کو اٹھارہویں آئینی ترمیم سے متصادم قرار دیا تھا جبکہ سیکرٹری ٹو پریزیڈنٹ شاہد خان نے کہا تھا کہ جامعہ کی طرف سے شروع کیے گئے اس پروگرام کی نہ تو چانسلر آفس سے منظوری لی گئی اور نہ ہی وزیر تعلیم کو اس معاملے میں آن بورڈ لیا گیا ۔’’نوائے وقت‘‘ کو دستیاب بورڈ آف ٹرسٹیز کے اس اجلاس کے میٹنگ منٹس کے مطابق بورڈ آف گورنر کے ممبر فاروق احمد نے اجلاس کو بتایا کہ گزشتہ اجلاس میں بھی موجودہ غیر قانونی پروگرام کو فوری ختم کرنے کی ہدایت دی گئی تھی جس پر تاحال عمل درآمد نہ ہو سکا ہے جامعہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے تیرہویں اجلاس میں پروگرام کو فوری طور پر رول بیک کرنے کے لیے معاملہ بورڈ آف گورنر کو بھیجنے کی بھی ہدایت دی گئی تھی اب جبکہ جون 2020میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس سے قبل جامعہ کی ہائی کمان نے اسلامی یونیورسٹی سکول پروگرام کو تاحال بند نہ کرنے کے حوالے سے نیامنصوبہ تیار کرتے ہوئے جامع کی قانونی ٹیم سے مجوزہ پروگرام کو جامعہ کی بقا کے لیے اشد ضروری قرار دلوانے سمیت اسلامی نظریاتی کونسل سے پروگرام کو جاری رکھنے کی سفارش کروانے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیے ہیں ۔واضح رہے کہ جامعہ کی بورڈ آف ٹرسٹیز کا آئندہ اجلاس رواں ماہ کی 30تاریخ کو منعقد ہونا ہے جس کی صدارت جامعہ کے چانسلر اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کریں گے میڈیا کی طرف سے معاملے پر موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے پر جامعہ کے ریکٹر اور بورڈ آف گورنر کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے کہا کہ ہم یہ معاملہ لے کر بورڈ آف گورنرز میں گئے تھے انہوں نے کہا کہ سکولزکو بند کر نے سے بہت سی قانونی کاررووائیاں شروع ہو جائیں گی اس وقتہمارے سکولوں کی 90فرنچائزز ہیں،ہم نے سکولوں کا اکیڈمک آڈت بھی کرایا ہے جس کے لیے خصوصی کمیٹی بنائی گئی تھی کمیٹی نے رپورٹ دی ہے کہ ان سکولوں کا نصاب بہترین طریقے سے ڈیزائن کیا گیا ہے یہ بہترین کام کر رہے ہیںاس لیے بورڈ آف ٹرسٹیز کے آئندہ اجلاس میں ہم ایک دفعہ یہ رپورٹ پیش کر کے اپیل کریں گے کہ ان سکولوں کو جاری رکھا جائے ابھی تک بورڈ آف گورنرز کی رپورٹ بھی نہیں آئی ہے انہوں نے کہا کہ میں خود بورڈ آف ٹرسٹیز سے درخواست کروں گا کہ ان سکولوں کو جاری رکھا جائے کیو نکہ یونیورسٹی 90قانونی کارروائیاں برداشت نہیں کر سکے گی۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی چاہتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل ہمارے سکولوں کے نصاب بارے رپورٹ بنائے اور چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل جو بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن بھی ہیں ان سے کہوں گا کہ وہ اجلاس میں یہ رپورٹ پیش کریں سکولوں کا آغاز ایک اچھی کوشش تھی لیکن اس وقت بورڈ آف ٹرسٹیز کو غلط گائیڈ کیا گیا کہ ان سکولوں کا نصاب زیادہ اسلامائزیشن اور شدت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے اس پر بورڈ کو کنونس کیا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جو کوئی سکول فرنچائز ریگولیشن کی پابندی نہیں کر تا اس کی رجسٹریشن منسوخ کی جا سکتی ہے ان سکولوں سے اب تک 160ملین آمدن ہو چکی ہے تاہم ہم بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلے کے مطابق دوسال سے مزید فرنچائزز نہیں دے رہی ہے حالانکہ ہمیں کئی درخواستیں آچکی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن