گدھ اور گدھے!!
پاکستان میں عہدوں کی بندربانٹ نے سارا نظام مفلوج اور کرپٹ کر کے رکھ ڈالا ہے۔ جب ہجرت کے وقت لوگ لٹے پٹے پاکستان آئے تو وہ اپنی تمام جائیدادیں بھارت چھوڑ آتے تھے۔ انہی لوگوں نے پاکستان بنانے کی خاطر اپنی املاکیں وقف کی تھیں اور جلسے جلوسوں اور بھارت میں مقیم مسلمانوں کی مدد، مرہم پٹی اور ہجرت کے لیے اپنے پیسے پانی کی طرح خرچ کیئے تھے کہ اپنے مسلم ملک میں، اپنی آزاد مملکت میں انصاف امن اور آزادی سے رہیں گے مگر اکثریت کو جانی مالی قربانی کاصلہ نہ ملا اور یہاں موجود ایک بڑی تعداد نے بھاگے ہوئے ہندوؤں کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔ اکثر نے جھوٹے کلیم کیے اور ککھ پتی سے لکھ پتی بن گئے۔یہی لوگ آج ارب پتی ہیں۔ پاکستان سنتے ہی مشکل ترین وقت میں گدھوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آ گئی لیکن قائد کی رحلت اور مسائل کی شدت کے باعث انکی سرکوبی نہ ہو سکی۔ ابتدائی دنوں میں گدھوں کی تعداد سینکڑوںمیں تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی اور اب تو ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ذاتی اغراض، دولت کی ہوس، عدوں کی طلب، طاقت کی بھوک نے انہیں اتنا خیرہ کر دیا کہ اپنے سوا انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سیاست، بیوروکریسی، میڈیا، عدلیہ ، تعلیم، صحت، کھیل غرض ہر شعبہ حیات میں ایسے گماشتے بیٹھے ہیں جو صرف اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ سیاست میں تقریباً چار دہائیوں سے ابن الوقتوں کا طوطی بول رہا ہے۔ جو بھی سیاست اور حکومت میں آیا۔ اُس نے اربوں روپیہ کمایا۔ عوامی بہبود کے حوالے سے کچھ کرتے موت آ گئی۔ آج بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، بھارت، چین سب ہم سے آگے اور انتہائی ترقی پر ہیں اور ہماری تنزلی کی داستانیں ختم نہیں ہوتیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اسقدر جھوٹ بولتے، سبز باغ دکھاتے ہیں کہ جاہل احمق اور جذباتی کارکن اپنے لیڈروں کو خدا سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر دوسری پارٹی کا کارکن، کوئی صحافی، دانشور، فلاسفر حقیقت بتاے تو یہ بغیر سچائی جانے گالی گلوچ کرنے لگتے ہیں۔ غلاظتوں کا یہ عالم ہے کہ سیاسی پارٹیاں آلودہ، مکروہ، اور پلید زبان استعمال کر کے پوری قوم کو اخلاقی دیوالیہ پن پرلے آئی ہیں۔ کرپشن پر لے آئی ہیں۔ کرپشن زدہ چہروں پر عقیدت کے پھول برسائے جاتے ہیں۔ گدھا بار برداری کا جانور ہے اور اس وقت پاکستانی قوم کی حالت اسی بار برداری کے جانور جیسی ہے جو بیوقوفوں کی طرح بوجھ اٹھاتا ہے لیکن بوجھ سے نجات حاصل نہیں کرتا۔ ملک میںکرونا کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لاہورمیں 35 لاکھ اور پنجاب میں 2 کروڑ کی تعداد بتا کر خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔ خدا کی قسم میں نے ایک کرونا کا مریض نہیں دیکھا۔
دوسری طرف آٹا چینی دالیں تیل پھل سبزیاں غرض ہر چیز اتنی مہنگی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے بدترین ظلم ہے لیکن کوئی اس ظلم کے آگے کھڑا نہیں ہوتا کیونکہ ہم نسل در نسل غلام ہیں۔ گدھوں اور گدھوں کے بیچ میں زندہ ہیں۔ علم، شعور اور غیرت کی کمی ہمارا اصلی مسئلہ ہے۔…(ختم شد)