فضل الرحمان سے ملاقات: حکومت بیساکھیوں پر، لگتا نہیں مدت پوری کریگی‘ اختر مینگل
اسلام آباد/کوئٹہ (آن لائن‘نوائے وقت رپورٹ) وفاق میں تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر جان مینگل بھی حکومت مخالف تحریک کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ سردار اختر جان مینگل نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی‘ حکومتی حلقوں میں اضطراب پیدا ہو گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اختر مینگل کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے موقع پربی این پی کی طرف سے سینیٹر جہانزیب جمالدینی اور جے یو آئی کی طرف سے مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا اسعد محمود اور دیگر بھی شریک ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں حکومتی بجٹ اور تحریک انصاف حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر غور کیا گیا۔ اختر مینگل اپنے 6 نکاتی ایجنڈے پر مولانا فضل الرحمن سے تبادلہ خیال کیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کی وفاق سے علیحدگی کے بعد بلوچستان کی دیگر سیاسی جماعتوں نے سرجوڑ لئے ،وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی نے پارلیمانی اجلاس اتوار کو طلب کرلیا، اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان، ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز شرکت کرینگے جس میں پارٹی کے تحفظات اور خدشات کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے حوالے سے غور اورآئندہ کالائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ پارٹی اجلاس بلوچستان عوامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل و سینیٹر منظور احمد کاکڑ کی زیر صدارت ہوگا جس میں بی اے پی کے ارکان قومی اسمبلی اور سینٹرز شرکت کریں گے ، ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی حکومت سے متعلق تحفظات اور خدشات کے حوالے سے غور ہوگا۔ واضح رہے کہ جمہوری وطن پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے بھی وفاق کی جانب سے تحفظات اور خدشات دور نہ کرنے پر پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیاجائے گا۔ دریں اثناء اختر مینگل نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان مہاجرین اور قانون سازی کے مسئلہ پر بھی کوتاہی کی جا رہی ہے۔ حکومت سینٹ پریکٹس کرتے کرتے ہماری وکٹیں اڑاتی رہی ایسا لگتا تھا کہ ہماری محرومیوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے حکومت سے الگ ہونے کے بعد کسی سے رابطہ نہیں ہوا حکمت اگر بات کرنا چاہتی ہے تو سوچے ہمیں دینے کیلئے ان کے پاس کیا ہے دو سال میں جو نہیں کیا جا سکا وہ ایک مہینے میں کس طرح کریں گے ؟ حکومت کو کب تک ہاتھ پکڑ کر چلائیں گے۔ اپوزیشن سے گزارش ہے بلوچستان کے مسائل پر ہمارا ساتھ دے اپوزیشن بلوچستان کے مسائل کو پاکستان کے مسائل سمجھے اس میں کوئی شک نہیں حکومتوں کو چلانے والی اسٹیبلشمنٹ ہے ہمیں وزارت کی آفر کی گئی تھی اگر بلوچستان کا مسئلہ وزارتوں سے حل ہوتا تو اب تک حل ہو گیا ہوتا وزارتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے موجودہ حکومت کے پاس کوئی ٹیم ورک نہیں حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں ان کے پاس اختیارات ہیں یا نہیں؟ وزیراعظم ایک بات کرتے ہیں پھر مکر جاتے ہیں بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے کہ صوبے میں اب تک 418 افراد بازیاب ہوئے 500 لاپتہ ہیں۔ بلوچستان سے 500 افراد پی ٹی آئی حکومت کے بعد لاپتہ ہوئے بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ مشرف دور سے حل رہا ہے۔ حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ اتحادیوں کے ساتھ یہی رویہ رہا تو اعتماد کا ووٹ لینا مشکل ہو جائیگا۔ لاپتہ افراد کا معاملہ حکومت کے اختیار میں نہیں ہے۔ بلوچستان میں کچھ گروپس نے سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچایا جرائم پیشہ افراد کے خاتمے تک بلوچستان میں امن نہیں ہو سکتا۔ جرائم پیشہ افراد ریاست کا کندھا استعمال کرکے کارروائی کرتے ہیں ان افراد نے اپنی گاڑیوں پر سبز ہلالی پرچم لگایا ہوا ہے۔ یہ لوگ قومی پرچم تلے لوگوں کو اٹھا کر تاوان طلب کرتے ہیں۔ کرپشن کرنے والوں کے جرم بھی قومی پرچم تلے صاف ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے این ایف سی ایوارڈ کی مد میں ملنے والی رقم خرچ نہیں ہو رہی ۔18 ویں ترمیم‘ این ایف سی ایوارڈ کا بلنڈر کرنے جا رہی ہے۔ وزیراعظم ڈکٹیٹر بن سکتے ہیں وزیراعلیٰ ڈکٹیٹر نہیں بن سکتے۔ حکومت کی جانب سے ہمیں کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حکومت کے آتے ہی بڑے بحران آئے کبھی چینی کبھی آٹے کا بحران۔ معیشت سے متعلق چلو بھر پانی میں ڈوبنے کا مقام آ گیا۔ معیشت پر کرونا ٹڈی دل کے اثرات اگلے سال مرتب ہوں گے۔ سرحدوں سے کرونا کے مریضوں کو نہیں روکا گیا۔ وزیراعظم صرف تقریریں جھاڑ کر چلے جاتے ہیں۔ وزیراعظم شہنشاہ نہیں آپ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ عالمگیر‘ اورنگزیب کا نام سنا تھا آج دیکھ بھی رہے ہیں۔ لگتا نہیں حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ حالات تب بہتر ہوں گے جب صاف شفاف الیکشن ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو آنے والے دنوں کیلئے صف بندی کر لینی چاہئے۔ سیاسی جماعتوں کو تہیہ کرنا چاہئے کہ کسی کی ڈگری پر نہیں ناچیں گے۔ عوام کو ’’ٹیبلٹ‘‘ کو قبول کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن پہلے روز متحد ہو جاتی تو ایک سال حکومت نہیں چلا سکتے تھے۔ اپوزیشن کو چاہئے سب مل کر حکومت کو راہ راست پر لائیںْ اپوزیشن کیلئے پیغام ہے اس ملک پر رحم کرے۔