لداخ معاملے پر کشیدگی بڑھ گئی: چینی فوج نے درہ قراقرم کے اہم علاقے میں پوزیشن سنبھال لی، بھارتی فورسز بھی ہائی الرٹ
نئی دہلی‘ بیجنگ (نیٹ نیوز/ نیوز ایجنسیاں) بھارت نے اپنی تینوں مسلح افواج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کے بیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد چین کے ساتھ میجر جنرل سطح کی ہونے والی بات چیت کا فی الحال کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ بھارتی اور چینی فوجی عہدیداروں کے درمیان گزشتہ دو روز میں جمعرات کو دوسری ملاقات ہوئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فی الحال دونوں ممالک اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ بھارتی فوجیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ چینی فوج نے وادی گلوان ویلی میں درہ قراقرم کے قریب نئی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں جو سٹریٹجک لحاظ سے بہت اہم ہیں ۔ مشرقی لداخ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی گلوان میں آٹھ کلو میٹر اندر آ گئی ہے۔ چین کے ساتھ کشیدگی میں بھارت نے بری ، بحری اور ہوائی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے جبکہ آرٹلری اور اضافی فوجی دستے لداخ روانہ کر دیے ہیں۔ لیہہ، سرینگر شاہراہ سونہ مرگ سے آگے صرف فوجی گاڑیوں کے لیے مختص ہے ۔ اس شاہراہ پر بھارتی فوجی کانوائے لداخ کی طرف رواں دواں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور جموں میں بھارتی ایر فورس کی غیر معمولی پروازیں بھی دیکھی گئی ہیں۔ مشرقی لداخ میں گلوان ندی کے نزدیک دوسرے روز بھی بھارت چین افواج کے درمیان شدید کشیدگی کا ماحول دیکھا گیا۔ دوسری طرف چین کی طرف سے بھی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں۔ لیہہ سرینگر شاہراہ پر دن بھر فوجی کانوائے کے ذریعے آرٹیلری اور اضافی فوجی اہلکاروں کو لداخ کی طرف بھیجا گیا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث لداخ میں رہائشی پذیر لوگوں میں خوف ودہشت کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ لداخ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر چین اور بھارتی افواج کے درمیان صلح نہ ہوئی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔لداخ کے دارالحکومت لیہہ سے کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈر رگزن سپلبار نے برطانوی اخبار کو بتایا ہم رفتہ رفتہ اپنی زمین کھوتے جارہے ہیں اور اس بار چینی فوج وادی گلوان میں آٹھ کلو میٹر اندر آچکی ہے۔'ہم بارڈر پر رہنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں سب پتہ ہے۔ 1962 میں حقیقی کنٹرول لائن کہاں تھی اور آج کہاں ہے آپ وہ دیکھ لیں۔ چین نے تو وہاں پر اپنی سڑک بھی بنا لی ہے۔ چین کبھی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا ہے۔ اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔'بھارتی نیوز چینل نیوز 18 کی ایک رپورٹ میں چینی حملے میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی تعداد 23 بتائی گئی ہے تاہم منگل کی شام دیر گئے بھارتی فوج کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 20 بتائی گئی تھی۔اسی رپورٹ میں ایک فوجی افسر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ چینی فوجیوں کے حملے میں زخمی ہونے والے بھارتی فوجی اہلکاروں کی تعداد 100 سے زائد ہے، جن میں سے دو درجن کے قریب افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔ لداخ کے ایک صحافی نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ لداخ میں چین کے ساتھ ملحقہ سرحد کی صورت حال کشیدہ ہے اور لوگوں میں بھی سخت خوف و ہراس ہے۔'میری اطلاعات کے مطابق سرحد کے نزدیک جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔ وادی گلوان اور اس کے تمام مضافاتی علاقوں میں موبائل سروس بند کردی گئی ہے، مشرقی لداخ میں بھارتی فوج کے خلاف چینی فوجیوں کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ بعض بھارتی فوجیوں نے ان کے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے دریائے گلوان میں چھلانگ لگا کر اپنی جانیں دیں۔ برطانوی اخبار کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب کو ہونے والی جھڑپ کے دوران چینی فوج نے بھارتی فوج کی 16 بہار رجمنٹ کے اہلکاروں پر حملہ آور ہونے کے لیے جدید ہتھیاروں کی بجائے لوہے کی سلاخوں اور خاردار تار والی لاٹھیوں کا استعمال کیا۔