• news

پنجاب اسمبلی: حکومت کرونا کے پیچھے نیہں چھپ سکتی، حمزہ شہباز: یہ آپ کا لوٹ مار والا زمانہ نہیں: اسلم اقبال

لاہور( خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث کے پہلے روز حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر روایتی الزام تراشی عروج پر رہی، قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز سمیت دیگر اپوزیشن اراکین نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے الفاظ کاگورکھ دھندہ اور عوام کے لیے مایوس کن قرار دیدیا جبکہ حکومتی ارکان نے بجٹ کو موجودہ مشکل حالات میں مثالی بجٹ قراردیدیا ، صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کی تنقیدی تقریر کے دوران لیگی خاتون رکن عظمی بخاری سیخ پا ہو گئیں جس پر سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے کرنا ہے تو آپ باہر چلی جائیں جس کے بعدعظمیٰ بخاری ایوان سے واک آئوٹ کرگئیں۔ حمزہ شہباز نے بجٹ پر عام بحث کا آغازکرتے ہوئے اسے الفاظ کاگورکھ دھندہ قراردیا اورکہا کہ حکومت کروناکے پیچھے چھپ نہیں سکتی ، کرونا کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کا ماحول یکسر تبدیل ہو گیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے وہ اقدامات نظرنہیں آئے جو ہونے چاہیے تھے، اگر سنجیدگی سے معاشی حل تلاش اور انتقامی سیاست سے اجتناب نہ کیا تو ملک کو بڑا نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کراچی گئے اتحادیوں سے ملاقات کی لیکن کیا اچھا ہوتا پی آئی طیارہ حادثہ کی جگہ پر بھی جاتے، کتنا اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم کسی شہید کے گھر جاتے۔انہوں نے کہا کہ ایکسپو سینٹر میں کرونا کے مریضوں کے نام پر قائم کئے گئے فیلڈ ہسپتال پر90 کروڑ ادا کیے گے لیکن مریض سہولتوں سے محروم ہیں۔ چین میں وائرس شروع ہوا تو کہا گیا یہ معمولی فلو ہے پینا ڈول سے ٹھیک ہو جائے گا، ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بار بار کہتے رہی کہ ڈائون کیا جائے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی،چھ ہزار لوگ روزانہ کرونا وائرس کاشکار ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹرز نے جو کہا وہ سب آج سچ ثابت ہو رہا ہے، ہر جگہ پر حکومت جھوٹ سے کام لے رہی ہے جو خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی تقریر کے دوران حکومتی بنچوں سے کسی نے مداخلت نہیں کی بلکہ جمہوری طریقے سے قائد حزب اختلاف کی تقریر کو سنا مگر اس کے برعکس جب بجٹ پیش کیا جارہا تھا تو اپوزیشن نے غیر جمہوری رویہ اپنایا جس پر سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن نے اپنے رویے پر معذرت کی تھی ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ایوان میں بھی معذرت کرتے۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت کا اہم حصہ ہے،ٹڈی دل کے حملے کی وجہ سے چالیس فیصد فیصلیں تباہ ہو چکی ہے، زراعت کیلئے 7.60ارب روپے رکھے گئے ہیں جو مذاق ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملامین کی تنخواہیں ایک فیصد بھی نہیں بڑھائی گئیں، وسیم اکرم پلس ہیلی کاپٹر میں کرونا کا جائزہ لے رہے ہیں، جب یہ حالات زار ہو پھر خدا سے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ٹرین میں لوگ زندہ جل گئے لیکن آج تک اس کو رپورٹ نہیں آئی،سانحہ ساہیوال کو ایک سال گزر گیا، بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیاں ماری گئیں، ساہیوال سانحہ کے معصوموں کو انصاف فراہم نہیںکیا جا سکا۔ کبھی نیب کی آنکھیں کھلیں گی ، بی آرٹی کے منصوبے کو کوئی دیکھے گا ،ہیلی کاپٹر کیس کا فیصلہ کوئی کرے گا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی بھی عدالت میں گئے کہ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کرتا ہے ،نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپوزیشن پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں،سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہ نیب نے اس ملک کو تباہ کیا ہے،ایک سال گزر گیا لیکن نیب میرے خلاف ریفرنس دائر نہیں کر سکا۔مجھے نہیں معلوم میرے خلاف نیب نے کیا کیس بنایا ہے۔کنٹینر پر چڑھ کر دعوی کرنے والے آج بے نقاب ہو گئے ہیں، یہ لوگ اپنا ایک بھی دعویٰ پورا نہیں کر سکے، احتساب ہونا چاہیے لیکن بلاتفریق ہونا چاہیے لیکن ان کے احتساب میں بغض کی بو آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام میں بدنظمی انتہا پر رہی،کرونا وبائ￿ سے نمٹنے کے لیے صرف 4 ارب روپے رکھے گئے ہیں،کرونا کے ٹیسٹ کی قیمت 9 سے 11ہزار ہے ،غریب کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروائے یا اپنے بچوں کا پیٹ پالے ، کرونا وائرس کی وبائ￿ کو تو تین مہینے ہوئے ہیں جبکہ ملک کی معیشت اس سے پہلے ہی تبا ہ حال کر دی گئی۔ ہم چینی 52روپے فی کلو پر چھوڑ کر گئے ،موجودہ حکومت کی وجہ سے عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکال لئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پچاس ہزار روزانہ کرونا ٹیسٹ کرنے ہوںگے تب جا کر نجات مل سکے گی،حکومت سمارٹ لاک ڈائون کرتی ہے تو عوام کو روز گار کیسے دے گی؟۔ انہوںنے کہا کہ ڈینگی آیا توہم نے 30 ارب کا بجٹ رکھا، سری لنکا سے ماہرین کی ٹیمیں آئیں، ہم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکھٹا کیا اور ڈینگی پر قابو پایا۔صوبوں میں کرونا ایس پیز کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔حمزہ شہباز نے کہا کہ ایک ہوتے تھے ہمارے کیانی صاحب ،جن کے خلاف ادویات کا سکنڈل بنا لیکن نیب انہیں نہیں پوچھتا، یہ نیب کے پیارے ہیں ،آج جان بچانے والی ادویات نایاب ہوگئی ہیں، ایک انجیکشن کی قیمت میں200 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کھولیں حکم امتناعی کے پیچھے مت چھپیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے بجٹ کوعوام دوست قرار دے کر بڑاشور مچایا جارہا ہے کہ ٹیکس ریلیف آ گیا ہے۔ لیکن گزشتہ دو سالوں میں ترقیاتی بجٹ میں 17فیصد کمی ہوئی ہے، اورنج لائن ٹرین منصوبے کو دو سال گزر گئے لیکن یہ مکمل نہیں ہو سکا،جنہوں نے (ن) لیگ کی حکومت نے پانچ سال میں دس ہزار ارب کا قرض لیا ، نئے پاکستا ن والوں نے ڈیڑھ سال میں گیارہ ہزارارب کاقرض لے لیا ،ہماری حکومت نے جو بیرونی قرضے لئے ان سے11ہزار میگا واٹ بجلی بنی 1700کلو میٹر موٹروے بنی،سی پیک آیا ،معیشت کا پہیہ چلنے لگا، دہشت گردی کا خاتمہ ہوا روز گار عام ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آج موجودہ حکومت قرضوں کے انبار بھی لگاتی ہے اور اس کے پاس کوئی معاشی پلان بھی نہیں ہے ، انہیں معیشت کااندازہ ہی نہیں اور ان کا بنایا ہوا بجٹ بھی ان کی طرح بے ربط اور بے سمت ہے۔انہوں نے مزید کہاآنے والے دن غریب آدمی پر بہت سخت ہیں، میں کوئی جوتشی نہیں ہوں، ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کرنے سے معیشت کو سہارا نہیں ملے گا ،بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہو گا، میںپوری قوم کو اپنی تشویش سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے معیشت کہاں کھڑی ہے، یہ ہمیں معیشت نہ سکھائیں ، اس ? میں کوئی شک نہیں ان کی ذاتی معیشت خرا ب ہوئی ہے ،اب خانچے اور ٹی ٹیز بند ہوگئی ہیں ،یہ بتائیں کہ چینی کی ملیں کن کی ہیں،40 میں سے 7 ملیں ان کی ہیں ،25ارب کی سبسڈی ان کے دور میں دی گئی ،عمران خان کی کوئی چینی مل نہیں۔کک بیکس کی سٹوریاں کس کی ہیں، یہ آٹے اور چینی کی بات کرتے ہیں بتائیںشوگر ملیں اور آٹے کی ملیں کس کی ہیں ، اصل میںیہ چینی اور آٹا چور ہیں،ان کی شوگر ملوں نے ابھی بھی 78 کروڑ دینا ہے ،سستی روٹی آٹا سکیم سے اربوں روپے اپنی جیب میں ڈالے۔ انہوںنے کہا کہ کہتے ہیں ٹرین کے اندر آگ لگ گئی ،جب ایل ڈی اے کے اندر آگ لگی تھی ،ایل ڈے میں اس لئے آگ لگائی گئی کیونکہ وہاں ان کے ذاتی معاملات تھے، ان سے پوچھیں ماڈل ٹائون میں 14 لوگوں کو کیوںقتل کیوں۔ آپ نے 90 کروڑ روپے کی بات کی اس کا ریکارڈ پیش کریں یہ آپ کا زمانہ نہیں جس میںلوٹ مارہو۔ صحت کے شعبے میں ان کے بجٹ سے 74 ارب زیادہ رکھا ہے۔انہوںنے کئی سرکاری عمارتیں مکمل نہیں کیں۔جناب سپیکر صحیح کہتے ہیں سری لنکا کیا پوری دنیا کے لوگ ان سے تربیت لینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ کھاتے بھی ہیں اور روتے بھی ہیں۔ مزدور کو جب بل آتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاہدے مہنگے کر گئے تھے، بتائیں سرجیکل ٹاور وزیر آباد کارڈیالوجی ،میرے حلقہ کا ہسپتال کیوں نے مکمل کیا ، یہ کس منہ سے صحت کے شعبے کی بات کرتے ہیں۔ان میں بغض بہت زیادہ ہے جس کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں ،جتنا ان میں بغض ہے کسی میں نہیں۔پیپلز پارٹی کے رکن مخدوم عثمان نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم تو کہتے ہیں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھیں اور مسائل کا حل نکالیں۔

ای پیپر-دی نیشن