• news

ایکشن لینے والے اداروں کو کمشن میں ڈال دیا اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(وقائع نگار) اسلام آبادہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمشن کی تشکیل، چینی رپورٹ اور حکومتی اقدامات کیخلاف ملز مالکان کی درخواست پر سماعت آج تک ملتوی کردی۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکلا کے دلائل جاری ہیں۔ عدالت نے ملز مالکان کے خلاف حکومتی کارروائی کو روکنے کے حکم میں بھی توسیع کردی جبکہ مقدمے میں فریق بننے والے کاشتکاروں کو مسائل کے حل کے لیے صوبائی قوانین کے مطابق صوبوں سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی انکوائری کمیشن کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران شوگر ملز مالکان کی جانب سے مخدوم علی خان جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر عدالت نے کہا کہ درخواست گزار ملز مالکان کے وکیل پہلے دلائل دیں کہ چینی رپورٹ میں کیا غلط ہے؟ جس پر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہو گا انکوائری کمیشن نے فئیر طریقے سے کام کیا یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا ہو گا کمیشن نے پہلے سے کوئی مخصوص نتیجہ نکالنے کی سوچ سے کام تو نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا تھا، اس فیکٹ فائنڈنگ کمیشن سے شوگر ملز کس طرح متاثر ہو رہی ہیں؟ وفاقی حکومت کے پاس قانون کے مطابق نیب کو شکایت بھیجنے کا حق موجود ہے، فرض کریں انکوائری کمیشن نہ بھی بنایا جاتا، حکومت پھر بھی نیب کو معاملہ بھیج سکتی تھی، شوگر ملز ایسوسی ایشن ساری مشق کو غیر قانونی یا متعصبانہ کیسے سمجھتی ہیں؟ جن اداروں نے بعد میں ایکشن لینا تھا انہیں پہلے کمیشن میں ڈال دیا گیا، عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیاکہ اگر کسی نے بڑے سے بڑا سنگین جرم کیا، فئیر ٹرائل تو ہر شخص کا حق ہے، چینی رپورٹ کوئی فیصلہ نہیں بلکہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ہے، یہ رپورٹ صرف وفاقی حکومت کے لیے ہے اداروں پر بائنڈنگ نہیں، تمام اداروں نے فئیر ٹرائل کے لیے متعلقہ لوگوں کو سننا ہے، جو ادارے اب تفتیش کریں گے وہ اس رپورٹ سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ تحقیق کریں گے، یہ سب پاکستان کے شہری ہیں، یہ صرف فئیر ٹرائل کی بات ہے۔ میڈیا ٹرائل کے ذریعے کسی کا بھی قانونی حق متاثر ہو سکتا ہے، جب انکوائری رپورٹ کمیشن میں موجود اداروں کو ہی بھیجیں گے تو وہ کیسے فیصلہ کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا سٹیٹس صرف فیکٹ فائنڈنگ ہے، نیب کو بھی بھیجیں گے تو وہ بھی پہلے انکوائری کریں گے پھر اس کو پراسس کریں گے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ فئیر ٹرائل کیسے ممکن ہو گا۔ ملز مالکان کے وکیل نے کہا کہ پریس کانفرنسنگ کے ذریعے ہمارا میڈیا ٹرائل کے ذریعے عزت نفس مجروح کی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیں، ہر بات پر پریس کانفرنس مناسب نہیں۔ ملز مالکان کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے کہاکہ رپورٹ میں ہم پر ذخیرہ اندوز، مافیا اور کارٹل کے الزامات لگائے گئے، ہمیں مافیا قرار دے کر آزادانہ تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟۔ جس پراٹارنی جنرل نے کہاکہ ایف بی آر، ایس ای سی پی، ایف آئی اے کے نمائندے اس لیے تھے کیونکہ ان کی ایکسپرٹیز ہیں، فئیر ٹرائل کے حوالے سے عدالت کے موقف کی حمایت کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پریس کانفرنس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ فئیر ٹرائل متاثر ہوتا ہے، آپ ایک اچھا کام کرتے ہیں تو کیا ضرورت ہے اس پر پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کیس کا فیصلہ دیکھنے کی ہدایت کی۔ شوگر ملز مالکان کے وکیل نے کہا کہ حکومت مرضی کا کمیشن بنا کر من پسند افسران کا تقرر کرتی ہے، مرضی کی رپورٹ لے کر کمیشن افسران کو گریڈ 22 میں ترقی دی گئی۔ چینی رپورٹ لے کر الزامات لگا کر سارا بوجھ مستقبل میں تحقیقات کرنے والوں پر ڈال دیا گیا۔ اگر حکومت ہماری مخالف ملز مالکان سے مل کر رپورٹ دیتی ہے کیا عدالت آنکھیں بند کرلے گی؟۔ مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ معاملہ عدالت میں ہے اور وزیر اعظم اور ان کے معاونین ہمیں پہلے ہی مافیا کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کون سی عدالت ہے جو انکوائری رپورٹ پر سٹے آرڈر دیتی ہے۔ شہزاد اکبر سمیت دیگر معاونین روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کر کے ہمیں مافیا کہتے ہیں۔ پہلے مافیا کہا جاتا ہے پھر معاملہ نیب اور ایف آئی اے کو بھیجا جاتا ہے۔ یہ میڈیا ٹرائل دکھاتا ہے کہ ساری مشق متعصبانہ ہے۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد دوبارہ سماعت کے دوران مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے دوباہ دلائل دینا شروع کیا تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ ابھی تو انکم ٹیکس والوں نے آپ کو نوٹس نہیں کیا، جس پر شوگر ملز وکیل نے کہا کہ نہیں انکم ٹیکس کی جانب سے ابھی کوئی نوٹس نہیں ملا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس رپورٹ کی بنیاد پر ساری ملز کی فرانزک آڈٹ ہو سکتی ہے، جس پر شوگر ملز وکیل نے کہا کہ ٹیکس کمشنر کیا کابینہ کے فیصلے معاون خصوصی کے خطوط کے بعد آزادانہ انکوائر کر سکے گا؟۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان آج اپنا موقف پیش کریں۔ شوگر ملز کے وکلا تحریری دلائل بھی جمع کرا سکتے ہیں، عدالت نے انکوائری کمیشن رپورٹ پر حکومت کو کارروائی سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے سماعت ہفتہ 20جون تک کیلئے ملتوی کردی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن