• news
  • image

خاموش ہو گیا ہے، چمن بولتا ہوا

خالد یزدانی
پاکستانی ٹیلیویژ ن کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک چلنے والے پروگرام ’نیلام گھر‘ سے شہرت پانے اور پینتالیس سال ’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ‘‘ کہنے والی آوازطارق عزیز سترہ جون کو خاموش ہو گئی ،
ان کے والد عبدالعزیز اپنے نام کے ساتھ ’’پاکستانی‘‘ لکھتے تھے ،وہ تحریک پاکستان کے پرجوش کارکنوں میں تھے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی طارق عزیز اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کر کے ساہیوال آگئے جالندھر میں پیدا ہونے والے طارق عزیز نے اپنے کریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا تھا اور 1964 میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو وہ وہاں کام کرنے والی اولین شخصیات میں سے ایک تھے۔طارق عزیز نے پاکستان ٹیلی و ژن کی پہلی نشریات کی میزبانی بھی کی تھی، جبکہ انھیں اصل شہرت پی ٹی وی پر 1975 میں شروع ہونے والے پروگرام ’نیلام گھر‘ سے ملی۔ بعدازاں اسے ’’بزم طارق عزیز‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔بلاشبہ وہ اپنی ذات میں ایک ا نسائیکلو پیڈیا تھے ،لاتعداد اشعار زبانی یاد تھے جن کا موقع محل کی مناسبت سے استعمال کر تے تھے ،طارق عزیز نے ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ فلموں میں بھی کام کیا تھا۔ ان کی مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی اور ہار گیا انسان شامل ہیں۔ طارق عزیز کوحکومت پاکستان نے نے ان کی خدمات کے صلے میں 1992 میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔طارق عزیز کے کالموں کا مجموعہ ’داستان‘ کے نام سے جبکہ پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’ہمزاد دا دکھ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔طارق عزیز نے سیاست کے میدان میں بھی آئے طالبعلمی میں وہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی کے زبر دست حامی تھے وہیں 1997 میں وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔طارق عزیز کچھ عرصہ روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘ میں کالم ’’داستان ‘‘ کے نام سے بھی لکھتے رہے ،اسی طرح بھٹو دور حکومت میں انھوں نے ایک فلم ’’ ساجن رنگ رنگیلا ‘‘ بھی بنائی تھے جب ذوالفقار علی بھٹو نے مینار پاکستان کے سائے میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ’’ادھر ہم ادھر تم ‘‘ کہا تھا، طارق عزیز نے اپنی فلم کے لئے اس جلسے کی کئی کیمروں سے فلمبندی بھی کروائی تھی ۔جہاں تک اداکاری کا تعلق ہے تو ہدائت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری ‘‘ میں ان کی پر فارمنس بہترین تھی ،اس کے علاوہ فلم سالگرہ اور اداکار حبیب کی فلم ’’ہار گیا انسان ‘‘ میں بھی ان کے کر دار بڑے جاندار تھے
طارق عزیزکے ساتھ میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب رضا سہیل نے لاہور کے ایک نجی شعبے کے کوآپریٹو بنک کے مالک عبدالمجید کو ’’نیشنل ٹائمز ‘‘ میگزین نکالنے پر آمادہ کیا ،جس کے لئے رضا سہیل نے بڑی مشکل سے طارق عزیز کو راضی کیا اور وہ خود اس کے ایڈیٹر تھے جبکہ راقم الحروف کو اسسٹنٹ ایڈیٹر کا تقرر نامہ ملا ، جب ماہنامہ ، نیشنل ٹائمزکا پہلا شمارہ شائع ہوا تو اس کی تقریب آواری ہوٹل میں رکھی گئی تھی جس میں ناصرف لاہور بلکہ ملک بھرکے معروف اہل قلم کے ساتھ سیاسی اور ثقافتی شخصیات نے بھی شرکت کی تھی ،کیا جریدے کے دفتر میں وہ باقاعدگی سے کچھ وقت ضرورگزارتے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے ،اس دوران طارق عزیز سے اکثر ملاقاتیں ہوتیں رہیں ، مگر اْن سے دوستی اور محبت کا رشتہ اس وقت قائم ہوا جب میں روزنامہ ’’نوائے وقت ‘‘ لاہور میں انچارج فلم ٹی وی ایڈیشن کے ساتھ کلچرل رپورٹر کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہا تھا ،ان دنوں پاکستان ٹیلی وژن کے فنکار معاوضوں میں اضافہ کے لئے روزانہ احتجاج کر رہے تھے،اس دوران انھوں نے تمام فنکاروں ککا ناصرف ساتھ دیا بلکہ حوصلہ بھی بڑھایا ۔طارق عزیز کی وفات پر نیلما درانی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’طارق عزیز نے پنجابی زبان میں شاعری بھی کی۔۔۔وہ منیر نیازی سے متاثر تھے۔۔۔۔پنجابی نظموں پر مشتمل انکی کتاب " ھمزاد دا دکھ "شائع ھو چکی ھے۔۔۔شعر وادب سیوالہانہ لگاو کی وجہ سیان کو اردو اساتذہ شعرا کے ھزاروں شعر زبانی یاد تھے۔۔۔جنہیں وہ اکثر پروگرام کے دوران سنایا کرتے تھے۔۔۔چند برس پہلے ان کی خواھش پر نیلام گھر کا نام تبدیل کر کے طارق عزیز شو کر دیا گیا۔۔۔پہلے ادوار میں طارق عزیز شو کی ریکارڈنگ پی ٹی وی لاھور سنٹر کے سٹوڈیو اے میں ھوا کرتی تھی۔۔۔۔پھر اس کو الحمرا ہال اور پھر محفلہال ایبٹ روڈ پر منتقل کر دیا گیا۔۔۔بڑھتی ھوئی عمر کے باوجود طارق عزیز کی آواز گرج اور سوال پوچھنے کے لیے سرعت سے سیڑھیاں چڑھنے کا انداز آخر دم تک قائم رہا ۔طارق عزیز نے وفات سے ایک روز قبل ٹویٹ کیا تھا ’’یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے‘ رواں دواں زندگی رک گئی ہے‘ کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی‘ نجانے پرانا وقت کب لوٹ کے آتا ہے‘ ابھی تو کوئی امید نظر نہیں آرہی‘‘طارق عزیز نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ چونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اس لیے وہ اپنے تمام اثاثے و املاک پاکستان کے نام کرتے ہیں۔ انہوں نے نیلام گھر پروگرام میں 'دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام' جیسے مکالمے سے عالمی شہرت پائی،ایسے عظیم فنکار کی وفات پر سب افسردہ
ہیں ۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے طارق عزیز کی وفات پر ان کے اہلخانہ سے تعزیت کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اپنے وقت کے آئیکون اور ٹی وی گیم شوز کی بنیاد رکھنے والے تھے۔گلوکار علی ظفر نے لکھا،ہم اپنے ہیروز کو بہت جلد بھول جاتے ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا۔اداکارہ ماورا حسین نے لکھا: میرے بچپن کا ایک بڑا حصہ۔ اپنے گیم شو سے ہمیں لطف اندوز کرنے کا بہت شکریہ۔
طارق عزیز کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جس نے وطن عزیز پاکستان کی بے لوث خدمت کی وہ ادب و ثقافت کے ساتھ سیاست میں بھی رہے ،اس کی ساری زندگی لکھنے اور بولنے میں بسر ہوئی جس پر یہ مصرع صادق آتا ہے ،خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا۔۔۔۔۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن