نواز شریف واپس آکر سیاست کریں اعتراض نہیں: مشیر پارلیمانی امور
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) مرتضٰے جاوید عباسی نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں سپیکر اسمبلی کے اقدامات کو سراہتا ہوں۔ ایوان میں کسی کی تضحیک نہیں ہونی چاہیے۔ ایوان کے تقدس کے لیے آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ میری تحریک استحقاق آپ کے پاس موجود ہے۔ عمر ایوب نے میرے استحقاق کو مجروح کیا ہے ۔انکی ویڈیو بھی منگوا لیں۔ یقین دہانی کرواتے ہوئے سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ میرے پاس دو ویڈیو آئی ہیں ایک حکومت اور ایک اپوزیشن کی ہے، میں ہر حال میں ایکشن لوں گا۔ مرتضے جاوید عباسی نے کہا کہ فاٹا کا آئینی طور پر انضمام میری پارٹی اور نواز شریف نے کی تھی۔ اس مرتبہ بجٹ کی تقریر پر وزیر موصوف کے چہرے پر مایوسی نظر آ رہی تھی۔ موجودہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ریلیف کی بجائے مزید تیرہ ہزار کم ہوگئے، مہنگائی کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تئیس فیصد اضافہ بنتا ہے۔ کرونا سے کل ایک دن میں 105 اموات ہوئی ہیں۔ اسلام آباد جیسے شہر میں وینٹی لیٹرز میسر نہیں۔ حکومت کی برتری بہت کم ہے۔ مینگل صاحب کی بات کے بعد وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے تھا۔ بجٹ کے بعد حکومت کی اپنی اور اتحادی صفوں میں تشویش ہے۔ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ میرا حق نہیں بنتا کہ آپ کو روکوں، آپ مجھے پرائیویٹ ملیں اس پر بات کر لیتے ہیں، آپ تحریری طور مجھے اپنے مسائل دیں میں بات کروں گا۔ مرتضے جاوید عباسی نے کہا کہ آپ ہمارے حقوق کا تحفظ کریں۔ سی پیک اتھارٹی نہیں بننی چاہیے تھیں لیکن کیوں بنی۔ سات سال قبل دو ہسپتال بنے فنڈز بھی تھے لیکن آج تک وہ ہسپتال نہیں بن سکے۔ سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ فیسکو کے چیف کو بلوایا ہوا ہے آپ کو بھی اس میٹنگ میں بلا لیں گے ۔ مرتضے جاوید عباسی نے کہا کہ چینی چوروں، آٹا چوروں کو ریلیف نہ دیا جائے۔ سیاحت کو ایس او پیز کیساتھ ضرور کھولا جائے لیکن بیروزگار لوگوں کو بھی ریلیف دیں۔ مدینہ کی ریاست کا دعویٰ کرنے والوں کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ مدینہ کی ریاست میں سود کے بغیر بجٹ پیش کیا جانا تھا، مدینہ کی ریاست میں انتقام نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو سیاست نہیں کرنے دی جارہی۔ ریاست کی طاقت سے روکا جا رہا ہے۔ دو ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے کے حوالے سے کمیشن بننا چاہیے۔ اس بحران سے صرف نواز شریف نکال سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا احساس پروگرام پاکستان کا شفاف ترین پروگرام ہے اس حوالے سے ثانیہ نشتر کسی بھی کمیٹی میں بریفنگ دے سکتی ہیں، سی پیک کے معاملے پر مودی کو اعتراض ہوسکتا ہے لیکن پاکستان کی کوئی اسمبلی اعتراض نہیں کرسکتی۔ ہم سارے کاروبار کھولنا چاہتے ہیں۔ مری ،گلیات میں سیاحت کھولنے کو تیار ہیں۔ ایس او پیز پر بات کی جا سکتی ہے۔ نواز شریف پاکستان واپس آکر سیاست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ نواز شریف اور انکے بچوں کی ٹکٹ ہم بک کروا کر دینے کو تیار ہیں۔ کرونا کیس سے صحت یاب ہوکر شہریار آفریدی ایوان میں پہنچ گئے۔ اس دوران اچانک بلاول بھٹو بھی ایوان میں پہنچ گئے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ساجدہ بیگم نے کہا کہ 2013میں سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ اسمبلی نے قانون سازی کی۔ خیبر پختونخواہ کیساتھ ہمیشہ زیادتی ہوئی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے محمد بخش خان مہر نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے قبل عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے، ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور بیرون ملک سے 200 ارب ڈالر واپس لانے کے وعدوں کو آج تک پورا نہیں کیا گیا۔ وفاق کی جانب سے صوبوں کے کام میں مداخلت آئین کی خلاف ورزی ہے۔ صوبہ سندھ پاکستان کا خالق ہے مگر اس کے حقوق اسے نہیں دئیے جارہے۔ دنیا میں پیٹرول سستا ہو رہا مگر یہاں سستا کیا ہوا لوگوں کو دستیاب تک نہیں۔ موجودہ حکومت کے جانے کا وقت آگیا ہے۔ محمد بخش مہر سے مکالمہ کرتے ہوئے سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ اپنی تقریر ختم کریں۔ محمد بخش بولے سپیکر صاحب ہم آپکے ساتھ کرکٹ کھیلتے رہیں کچھ تو وقت دیں۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کہتا ہے جب میری مخلوق کو تنگ کروگے تو میں تمہیں انجانے خوف میں مبتلا کردوں گا۔ کرونا وائرس نظر نہیں آتا مگر اس نے دنیا کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ آج پوری دنیا میں پاکستان کشمیر کے معاملے پر دنیا کو آگاہی دے رہا ہے۔ پاکستان نہ ایٹمی طاقت اور نہ کشمیر پر سودے بازی کرسکتا ہے۔ بھارت نے اسی لاکھ آبادی کو کشمیر میں جکڑا ہوا ہے۔ لداخ میں ہندوستان کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے محمد عمران شاہ نے کہا کہ اشرف جلالی کی جانب سے خاتون جنت کے خلاف توہین پر انکے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ تنخواہیں اور پینشن نہیں بڑھائیں تو ٹیکس کیسے لگانا تھا۔ پٹرول تو پچاس روپے کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان میں صرف آکسیجن بچی ہے جس پر ٹیکس نہیں لگا حکومت اس پر بھی ٹیکس لگا دے۔ مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ وفاق کو صوبوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے۔ ایک وزیر نے انکشاف کیا اس سے تو حکومت کے پیروں سے زمین نکل جانی چاہیے، ہمیں معلوم ہے کہ وفاق سندھ سے کیوں ہسپتال واپس لینا چاہتا ہے۔ تحریک انصاف کے کراچی سے رکن کیپٹن ر جمیل احمد کی بلاول بھٹو زرداری پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یوٹیوب دیکھو آپ کا چیئرمین سینما میں کارٹون دیکھنے جاتا ہے۔ ہمارا چیئرمین اپنی تاریخ دیکھنے کی بات کرے تو مذاق اڑایا جاتا ہے، ہمارے لیڈر قوم کو تاریخ دکھانے کے لیے ارطغرل ڈرامے دیکھنے کی تلقین کرتا ہے لیکن انکا لیڈر تو سینما میں کارٹون دیکھنے جاتا ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے کہا کہ پلوامہ کے موقع پر اپوزیشن نے عمران خان سے کہا کہ آپ جنگ ڈکلیئر کریں۔ لیکن وزیر اعظم نے کہا کہ میں کیا کروں۔ ٹڈی دل کا حملہ ایک سال پہلے ہوا، ایک پچاس سال پرانا جہاز بھیج دیا، پاکستان میں یہ طے نہیں ہوسکا کہ لاک ڈاؤن کرنا چاہیے یا سمارٹ لاک ڈاؤن۔ طاعون کی وجہ سے ریاستیں ٹوٹی ہیں۔ کرونا جنگ کی طرح ہے اور جنگ کے اصول اختیار کرنے ہونگے، حکومت نے پارلیمنٹ کو اس وقت لاک ڈاؤن کیا جب قوم کو اس کی ضرورت تھی۔ وزیراعظم لاڑکانہ گئے اور ہرن کے روسٹ کھائے۔ ایم کیو ایم کی کشور زہرا نے کہا کہ کرونا کے سبب پوری دنیا میں تباہی پھیل رہی ہے۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی جیسے شریف انسان کو گبھر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ایسی کارروائی کو حذف کرنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں کچلنے کی بجائے کالعدم تنظیموں بارے سوچیں۔ محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ آٹھارہ جون کو حکومتی وزراء کی پالیسیوں پر تنقید کی، مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں دوہری شہریت والوں کے خلاف بات کی۔ میں نے اس معاملے پر تحریک استحقاق جمع کرا دی ہے۔ آپ لوگوں نے ایک بریف کیس اٹھا کر شوکت عزیز، معین قریشی کی طرح چلے جانا ہے۔ حفیظ شیخ، زلفی بخاری جیسے لوگوں نے ملک تباہ کر دیا ہے، میں تنقید کرتا رہوں گا، میں نے دوہری شہریت والوں کے خلاف کوئی بات نہیں کی، زلفی بخاری اپنے اثاثوں کا اعلان کریں۔ کشور زہرا نے کہا کہ حکومت کو اپنے اہداف پورے کرنے کے لیے اپوزیشن کو سننا پڑے گا۔ ہم یہیں مریں گے، یہیں رہیں گے۔ آج ہمیں ستر سال بعد بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا، ہم غدار ہوتے تو بھاگ چکے ہوتے۔ ہم نے نوے کا نصیر اللہ بابر کا آپریشن سہا ہے، ہم کہتے ہیں تحقیق کیجئے اگر کوئی ملک کیخلاف کام کرتا ہے تو سزا کے لیے ہم سب سے آگے ہونگے۔وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میرے لیڈر اور میری فیملی کے بارے میں تضحیک کی تو پھر ایکسپوز کروں گا، ابھی چار لوگوں کو ایکسپوز کیا۔ میں 30 لوگوں کو ایکسپوز کرسکتا ہوں۔ 7 پی پی ارکان قومی اسمبلی نے این آر او مانگا، ان آر او مانگنے والوں میں سے ایک اس وقت یہاں اجلاس میں بیٹھا ہے، یہاں پر منتیں اور پیچھے سازشیں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عباداللہ سے دس کروڑ قوم کا نکلوا چکا ہوں، 66کروڑ پر حکم امتناعی ہے، اگر میں برا ہوں تو میرے گھر کے باہر آکر منتیں کیوں کررہے تھے۔ میرے والد کی منتیں کیوں کررہے تھے۔ اگر میں اتنا برا ہوں تو میرے گھر جرگہ لیکر کیوں آئے۔ پارلیمنٹ میں ذاتیات پر تقاریر کی گئیں، میری تقاریر سخت ہوسکتی ہیں مگر کسی پر ذاتی حملے نہیں کیے، سیاسی مخالفت کے نام پر میرے خاندان کی تضحیک کی گئی، اگر میرے سر پر گولی بھی رکھ دیں سٹیٹس کو کا حصہ نہیں بنوں گا، جتنی گالیاں دو گے اتنا ہی آگے بڑھوں گا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے شدید احتجاج کیا اور مراد سعید کو جواب دینے کیلئے مائیک مانگا۔ مگر پینل آف چیئر نے انہیں بولنے کی اجازت نہ دی۔ بدھ کو نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ شازیہ مری نے اس دن مجھے کہا چیئرمین بلاول تقریر کریں گے مگر آپ ذرا گزارا کرلینا۔ میں نے کہا دلیل سے بات کروں گا، میں نے تقریر کا جواب دیا، ان کے سوشل میڈیا نے میرے خلاف مہم چلائی، میں ان سے زیادہ سوشل میڈیا مہم چلوا سکتا ہوں مگر نہیں چلائی، مجھے فروٹ بھجوائی گئی، دوسری پار ٹی کے7 ارکان نے این آر او مانگا، ایک ایم این اے نے سڑک کا پیسہ کھا لیا، سڑک نہیں بنائی۔ ورکرز کا کوئی قصور نہیں انہیں قیادت جو کہتی وہی کرتے ہیں، میرے مخالف کو فون کرکے میرے بارے میں معلومات پوچھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسی گھر میں رہتا ہے اب جہاں سات سال قبل رہتا تھا۔ حقائق اور اعدادو شمار کے بغیر بجٹ پر تنقید مضحکہ خیزہے۔ دلیل سے بات کرنے کا حامی ہوں۔ میں نے آڈٹ درست کیا ہے تو مجھے پیچھے نہیں ہٹنا۔ پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے شدید احتجاج کیا اور بات کرنے کیلئے مائیک مانگا۔ شگفتہ جمانی نے کہا کہ ایوان میں بات نہیں کرنی دی جا رہی، ہماری دل آزاری کی جاتی ہے۔ اس پر پینل آف چیئر امجد نیازی نے کہا کہ شازیہ مری ایوان میں موجود نہیں، وہ آئیں گی تو خود بات کریں گی، شازیہ مری کا نام مراد سعید نے لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کا دل نہیں کررہا تھا کہ اس ایوان میں آکر بات بھی کی جائے۔ ماضی میں بھی پارلیمان بے توقیر ہوتی رہی مگر اتنی کبھی نہیں ہوئی جتنی اب ہورہی ہے۔ جتنا بے توقیر عمران خان صاحب کی حکومت نے کیا تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ ہم ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے کا مینڈیٹ لیکر نہیں آتے۔ پارلیمان کی بے توقیر ی دونوں طرف سے ہورہی ہے حکومت سپردگی کے مرحلے میںہے۔ ملک میں جمہوریت، انصاف، معیشت اور معاشرت کا بحران ہے، حقیقت میں پاکستان میں جمہوریت نہیں، کوئی آج مان گیا کوئی کل مان جائے گا، ہم حکومت نہیں گرانا چاہتے نہ ہی ہم کوئی عدم اعتماد لا رہے ہیں، جتنی وزارت عظمی کی توہین کی گئی وہ وقت آئے گا کہ وزارتیں دینے والے وزارت ہاتھ میں لیکر پھریں گے مگر کوئی نہیں لے گا، آپ کمبل کو چھوڑیں گے مگر کمبل آپکو نہیں چھوڑے گا، وہ وقت دور نہیں جب یہاں تذلیل کے ڈر سے کوئی وزیر اعظم بھی بننا نہیں چاہے گا۔ ریلوے میں اتنا کام کیا اور ایک شیخ چلی آیا ہر چیز برباد کرگیا، گیارہ ووٹوں کی حکومت ہے وہ بھی آپکے اپنے نہیں، کس خمار میں ہیں، اس ملک میں دو تہائی اکثریت کا کیا حشر ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، آپ مسائل پیدا کرتے ہیں اور این ڈی ایم اے تدارک کرتا ہے، بہتر ہے نظام ہی انکے حوالے کردیں، سانحہ بنگلہ دیش سے سبق نہیں سیکھا تو کرونا سے سبق سیکھ لیں، ہم مانتے ہیں ہر چیز مصنوعی طور پر کی، آپ بھی کچھ تو مصنوعی کام کر لیتے۔ انصاف والے انصاف، سکیورٹی والے سکیورٹی، حکومت والے حکومت اور اپوزیشن والے اپوزیشن نہیں کر رہے۔ اگر طاقت کے حصول کے لئے سب لڑتے رہیں گے تو کوئی طاقتور نہیں رہے گا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جب پولیس فورسز، ڈاکٹرز کام کررہے تو پارلیمان کا لاک ڈائون کردیا، ہماری جانیں زیادہ قیمتی تھیں۔ ابھی ایک وزیر صاحب نے 30منٹ ذاتی وضاحت پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نہ کرے کہ آپ خودکشی کریں، آپ نے مقابلہ کرنا تھا بھوک کا، بھارتی جارحیت کا، لیکن آپ نے مقابلہ کیا اپوزیشن کا۔ بجٹ سر پر تھا اور قائد حزب اختلاف کو گرفتار کرنے کے درپے ہوگئے۔ ضیاء الحق کا بدترین مارشل لاء اگر پیپلزپارٹی کو ختم نہ کرسکا تو کوئی کسی کو ختم نہیں کرسکتا۔ ہم اپنی اپنی باری دے آئے ہیں مان لیں سقوط کشمیر ہوچکا۔ ہمیں نشانہ بنالیں مگر ملک کا کچھ کرلیں، ہم نے ڈینگی ٹیسٹ نوے روپے میں کروایا، کرونا کا ٹیسٹ دوہزار میں ہوسکتا تھا نہیں کیا، سوچیں آپ کے پاس بعض اچھے لوگ ہیں مگر ان سے کام نہیں لیا جاتا۔ سید خورشید شاہ جیسے سینئر سیاستدان کو جیل میں ڈالا ہوا ہے، حمزہ شہباز گرفتار، خواجہ آصف کو نوٹس، یہ آپ نسلوں میں دشمنی منتقل کررہے ہیں۔ انکے ایک وفاقی وزیر کو سنا کہا کہ انکے پاس ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے، یہ غلط فہمی ذہن سے نکال دیں، آپشن ہر وقت ہوتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت نہ ہم میسر ہیں اور نہ پیپلزپارٹی میسر ہے، کل آپ کو رسیدیں بھی دکھانے پڑیں گی اور حساب بھی دینا پڑے گا۔ کچی آبادی کے سو بیروزگار لڑکے نکلیں گے اور ہر چیز کو تہس نہس کر دیں گے۔ ملک میں جمہوریت، انصاف، معیشت اور معاشرت کا بحران ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ''خاتم النبیینؐ" لکھنے سے متعلق متفقہ طور پر منظور ہونیوالی قرارداد پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے مرکزی و صوبائی حکومتوں خط لکھ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرارداد پر من و عن عملدرآمد ہو گا، قرارداد صوبوں اور متعلقہ اداروں کو پہنچ جائے گی، فالواپ چیک کیا جائے گا کہ کتنا عمل ہوا۔ بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میںوزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد نے لازمی کردیا ہے کہ جہاں جہاں نصابی کتب میں نام حضرت محمد ؐ آئے گا وہاں وہاں لفظ''خاتم النبیینؐ" لازمی لکھا بولا اور پڑھا جائے گا۔ قرارداد پر عمل کے لئے خطوط لکھے اور قرارداد کی کاپیاں بھیجے، قرارداد پر عمل کرانا اس ایوان کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ جی یہ ہم سب کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ خاتم النبیین لازمی لکھے جانے کی متفقہ قرارداد منظور کی، سپیکر آفس یقینی بنائے گا کہ قرارداد پر من و عن عملدرآمد ہو، آج ہی قرارداد صوبوں اور متعلقہ اداروں کو پہنچ جائے گی، فالواپ چیک کیا جائے گا کہ کتنا عمل ہورہا ہے۔