• news

ذخیر ہ اندوزی پر کارروائی کیخلاف آئل کمپنیوں کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد(وقائع نگار) اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمپنیوں کے خلاف کارروائی کیس میں وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔گذشتہ روز پٹرولیم کمپنیوں کی ایف آئی اے طلبی نوٹس کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران آئل کمپنی کے وکیل نے کہاکہ اس میں سادہ سا سوال ہے وزارت توانائی نے کمیٹی کس قانون کے تحت بنائی؟فیول کرائسسز کمیٹی میں ایف آئی اے سمیت دوسرے ادارے ڈال دئیے گئے،کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت انکوائری کمیشن نہیں بنا،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر شوگر ملز کے خلاف بھی ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن نہ بنتا تب بھی ایگزیکٹو انکوائری کر سکتی ہے،مفاد عامہ کا معاملہ ہو تو عدالت کو کیوں ایگزیکٹو کے معاملے میں مداخلت کرنا چاہیے؟ایگزیکٹو عوام کو جوابدہ ہے،کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ایگزیکٹو اس طرح کوئی انکوائری نہیں کر سکتے؟، وزارت ایگزیکٹو کا حصہ ہے قانون میں کہیں پابندی تو نہیں ہے کہ وہ انکوائری نہ کریں،آج سپلائی نہیں آرہی پبلک کے لیے بحران پیدا ہو گیا،ایگزیکٹو کی یہ ذمہ داری ہے بحران کو ختم کریں،بحران کا ذمہ دار کون ہے؟عدالت یا وفاقی کابینہ،جس پر آئل کمپنی کے وکیل نے کہاکہ بحران کی ذمہ دار وفاقی کابینہ ہے،انکوائری غیر جانبدار ہونی چاہئیے بیشک جج کو تعینات کر دیں،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہآپ جج کا کیوں کہہ رہے ہیں؟اس پر وکیل نے کہاکہ کیونکہ مقدمہ درج ہو رہے ہیں کراچی میں بھی مقدمات درج ہوئے اور حکم امتناع جاری ہو گیا،لاک ڈان میں پیداوار کم ہو گئی،وزارت نے خود کہا تیل درآمد نہ کریں،چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ آپ کی پٹیشن کس کی ہے،جس پر وکیل نے کہاکہ میرے درخواست اٹک پیٹرولیم کی ہے،وزیراعظم کبھی بھی کہہ سکتے ہیں ان کا لائسنس مسترد کر دیں،جس پر عدالت نے کہاکہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں وہ بحران کے متعلق کہہ رہے ہیں آپ ذخیرہ تو نہیں کرتے،چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ آپ کی سٹوریج کتنے دن کی ہوتی ہے جس پر وکیل نے کہاکہ وہ تو20دن کے لیے ہوتی ہے،ہمیں مافیا سے تشبیع دی جا رہی ہے،چیف جسٹس نیکہاکہ پہلے یہ بتائیں کہ مافیا کیا ہوتا ہے؟جس پر وکیل نے کہاکہ حکومت سارا پلان بنا کر ہم گندا کر رہی ہے،جس پر عدالت نے کہاکہ ہم کہہ دینگے کہ آپ کو مافیاز نہ کہا جائے کچھ اور کہا جائے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھرنے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی رٹ پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ یہ رٹ نہ پڑھیں اصل پیٹشن کی طرف آئیں،کس اتھارٹی کے تحت آپ پروسیڈنگ کر رہے ہیں،وہ یہ کہتے ہیں انکے پاس لائسنس ہیں۔آپ کس قانون کے تحت انکوائری کر رہے ہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ انکوائری کمیٹی میں جو ادارے ڈالے گئے ہیں وہ آزاد ہے،ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ کسی کاروائی کہ سفارش کرسکتے ہیں ان کا کام صرف فیکٹ فائنڈنگ ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ کمیٹی کے ممبران کے پاس کوئی پاور نہیں،یہ صرف کمیٹی کے ممبر ہیں جو معاملہ کی چھان بین کر رہے ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی یہ صرف کمیٹی ممبران ہیں انکے پاس کوئی پاور نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ اتنا ریگولیٹر ایریا ہے تو پھر آپ ان کو مافیا کیوں کہتے ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مافیا وہ ہوتا ہے جو بلیک میلنگ،سمگلنگ کریں،عدالت نے طارق کھوکھرسے استفسار کیاکہ آپ ان کے خلاف مقدمات درج کیوں کر رہے ہیں،جس پر ایڈیشنل اٹارنی نے کہاکہ ہم مقدمات درج نہیں کر رہے، درخواست گزار کے خلاف ہم نے کوئی مقدمہ ابھی تک درج نہیں کیا،آئل کمپنی وکیل نے کہاکہ ہمارے خلاف میڈیا کمپین چلائی جارہی ہے مافیا اور پتہ نہیں کس کس نام سے پکارا جارہا ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ لائیٹر نوٹ پر اگر کہوں تو یہ مافیا کیا ہوتا ہے حکومت کو کہہ دے دیتے ہیں ان کو مافیا نہ کہیں کچھ اور کہیں، جس پر وکیل نے کہاکہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جارہی ہیں سندھ ہائی کورٹ نے اسٹے بھی دیا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے خلاف جب ابھی تک ایف آئی آر نہیں ہوئی تو آپ کو تو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے،حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کا کہا جنہوں نے پٹرول کی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کی، چیف جسٹس نے آئل کمپنی وکیل عابد ساقی سے استفسار کیاکہ کیا آپ کی کمپنی کے خلاف کوئی ایکشن ہوا ہے؟وکیل عابد ساقی نیکہاکہ ایف آئی اے نے نوٹس جاری کرکے کراچی بلایا ہے،آئین فئیر ٹرائل کی گارنٹی دیتا ہے جو ہمیں نہیں مل رہی، قانون کے تحت فیول کرائسسز مینجمنٹ کمیٹی کے پاس کوئی اختیار نہیں،ہمارے کیس کا انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، قوانین موجود ہیں ان کے مطابق ہی متعلقہ ادارے کارروائی کر سکتا ہیں اس سے ہٹ کر نہیں، وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

ای پیپر-دی نیشن