• news

کرونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنا دیا: چیف جسٹس

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) کرونا از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کرونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنا دیا ہے۔ لوگوں کو بڑی امید تھی اس لئے تبدیلی لائے۔ حکومت کا مستقبل کا ویژن کیا ہے؟۔ حکومت عوام کے مسائل کیسے حل کریگی ۔ ٹی وی پر بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ عوام کو روٹی، پیٹرول، تعلیم، صحت اور روزگار کی ضروررت ہے۔ این ڈی ایم اے کے کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی۔ بظاہر ملک میں کوئی ادارہ کام نہیں کررہا، ہر ادارے کا حال این ڈی ایم جیسا ہے۔ معلوم نہیں این ڈی ایم اے کیسے کام کررہا ہے ؟۔ بس اربوں روپے ادھر ادھر خرچ کررہا ہے۔ عدالت کو معلوم نہیں کہ این ڈی ایم اے کے اخراجات پر کوئی نگرانی ہے یا نہیں۔ این ڈی ایم اے باہر سے ادویات منگوا رہا ہے۔ نہیں معلوم یہ ادویات کس مقصد کے لئے منگوائی جارہی ہیں۔ جو ادویات باہر سے آرہی ہیں اس کی ڈرگ ریگیولٹری اتھارٹی سے منظوری ہونی چاہئے۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا این ڈی ایم اے کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ایکٹ کے مطابق این ڈی اے حکومت کی معاونت کرتا ہے۔ ادویات کی منظوری ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی دیتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکیا یہ ادویات پبلک سیکٹر ہسپتالوں کو فراہم کی گئیں ہیں کیا ادویات سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی زیر نگرانی استعمال ہو رہی ہیں۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا این ڈی ایم اے کا آڈٹ آڈیٹر جنرل پاکستان کرتا ہے۔ این ڈی ایم اے ادویات منگوانے میں صرف سہولت کار کا کردار ا دا کررہا ہے۔ ممبر ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی نے کہا ہے کہ یہ در آمد کی گئی ادویات جس مریض کو دی جائیں ان کا ریکارڈ رکھا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہایہ دوا تشویشناک حالت کے مریضوں کے لئے ہے۔ اگر مریض کے کوائف اکٹھے کرنے شروع کردینگے تو اتنی دیر میں مریض دنیا سے چلا جائے گا۔ بہتر ہوتا کوائف اکٹھے کرنے کی ذمہ داری سرکاری ہسپتالوں کو دی جاتی۔ چیف جسٹس نے کہا دستاویز کے مطابق نجی کمپنی کے لئے مشینری این ڈی ایم اے نے اپنے جہاز پر منگوائی گئی۔ الحفیظ نامی کمپنی نے مشینری این 95 ماسک کے لئے منگوائی۔ کیا مشینری کی کسٹم ڈیوٹی ادا کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا مشینری منگوانے میں این ڈی ایم اے نے نجی کمپنی کو سہولت دی۔ مشینری پر کسٹم یا ٹیکس نجی کمپنی نے خود جمع کروایا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا اس طرح تو یہ نجی کمپنی این 95 ماسک بنانے والی واحد کمپنی بن گئی ہے۔ کیا ایسی سہولت فراہم کرنے کے لئے این ڈی ایم اے نے کوئی اشتہار دیا؟۔ این ڈی ایم اے نے صرف ایک نجی کمپنی کو سہولت فراہم ک۔ ہم چاہتے ہیں ہر چیز میں شفافیت ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہا این ڈی ایم اے اسی نجی کمپنی سے این 95ماسک نہیں خرید رہی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا فلائٹس کی بندش کی وجہ سے این ڈی ایم اے نے کمپنیوں کو یہ سہولت دی۔ ممبر این ڈی ایم نے کہا 28 کمپنیوں نے مشینری باہر سے منگوانے کے لئے این ڈی ایم اے سے رابطہ کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ 28 کمپنیاں پہلے سے چل رہی تھیں، پھر مشینری منگوانے کی ضرورت کیا تھی؟ ممبر این ڈی ایم نے کہایہ نجی کمپنیاں این 95 ماسک نہیں بنا رہی تھیں۔ اٹا رنی جنرل نے کہا این ڈی ایم اے نے ہنگامی حالات میں نجی کمپنیوں کو باہر سے مشینری منگوانے میں سہولت فراہم کی۔ چیف جسٹس نے کہا کسی انفرادی شخصیت کو فیور نہیں ملنی چا ہئے۔ نجی کمپنی کا مالک دو دن میں ارب پتی بن گیا ہوگا۔ نہیں معلوم باقی لوگوں اور کمپنیوں کے ساتھ کیا ہوا۔ کرونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنا دیا۔ اس میں کافی سارے لوگ شامل ہیں۔ نہیں معلوم اس کمپنی کے پارٹنرز کون ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ایسی مہربانی سرکار نے کسی دوسری کمپنی کے ساتھ نہیں کی، اس کے مالک کا گھر بیٹھے کام ہوگیا۔ نجی کمپنی کی این ڈی ایم اے نے این 96 ماسک کی فیکٹریاں لگوا دیں۔ ایسی سہولت سب کو فراہم کریں تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ بیروزگاری اسی وجہ سے ہے کہ حکومتی اداروں سے سہولت نہیں ملتی۔ اگر باقی شعبوں کو بھی اگر ایسی سہولت ملے تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔کس قیمت کی مشینری آئی، ایل سی کیسے کھولی گئی۔ ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ این ڈی ایم اے کے کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی۔ حکومت نے بزنس مینوں کو سہولت فراہم کرنی ہے تو اخبار میں اشتہار دیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کسی کمپنی کو ڈیوٹی میں سہولت نہیں دی جارہی۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت ایسا سب کاروباری شخصیات کے ساتھ کرے تو ملک میں صنعتی انقلاب آجائے گا۔ پیداوار اتنی بڑھ جائے گی کہ ڈالر بھی 165 سے بیس سے پچیس روپے کا ہوگا۔ ہمیں یاد ہے کہ ڈالر کبھی تین روپے کا ہوتا تھا۔ ملک میں بے روز گاری بڑھ رہی ہے۔ مشرق وسطی سے آنے والے پاکستانیوں کو کہاں کھپایا جائیگا۔ مشرق وسطی سے آنے والے پاکستانی تین ماہ جمع شدہ رقم سے نکال لیں گے اس کے بعد مزدور کیا کریں گے۔ کیا حکومت کا کوئی پلان ہے؟۔کیا چودہ دن قرنطینہ میں رکھنے کے بعد وہ جہاں مرضی ہے جائے؟ پچاس ہزار سے ایک لاکھ مزدور مشرق وسطی سے واپس آرہا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا تعلیمی اداروں سے لوگ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں ان کو کھپانے کا کیا طریقہ ہے۔ ہماری صحت اور تعلیم بیٹھی ہوئی ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے وہ نہیں معلوم۔ اگر حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے تو بتائیں۔؟ کیا عوامی مسائل پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے ہے۔ عوام کو روٹی، پٹرول، تعلیم، صحت اور روزگارکی ضروررت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا وزیر اعظم کہتا ہے کہ ایک صوبے کا وزیر اعلی آمر ہے۔ اس کی وضاحت کیا ہوگی؟ وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کی اس صوبے میں کوئی رٹ نہیں ہے۔ پٹرول، گندم، چینی کے بحران ہیں، کوئی بندہ نہیں جو اس بحران کو دیکھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا مسلم ممالک میں پاکستان ایسا ملک ہے جہاں رمضان میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ دیگر ممالک میں رمضان میں چیزوں کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا بیرون ملک سے منگوائی گئی ادویات کیا نجی پارٹی کو دی گئی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اس صورتحال میں این ڈی ایم اے کہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے پہلے بھی یہی ہوا کہ پرائیویٹ پارٹیوں نے سامان منگوا کر روک لیا قیمت بڑھائی گئیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت 4 ارب روپے کی 400 لگژری گاڑیوں کے لئے کیسے خرچ کر سکتی ہے۔ یہ گاڑیاں صوبے کے حکمرانوں کے لئے منگوائی گئی ہیں۔ ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ سولہ لاکھ ہے اس طرح کی لگژری گاڑیاں منگوانے کی اجازت نہیں دینگے۔ 4 ارب کی رقم سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائیں۔ کراچی کا نالہ صاف کرنے کے لئے پیسے نہیں۔کیا پنجاب، کے پی ،بلوچستان ایسی گاڑیاں منگوا رہے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کے پی اور پنجاب ایسی لگژری گاڑیاں نہیں منگوا رہا۔ چیف جسٹس نے کہا این ڈی ایم اے کی رپورٹ میں مشینری، امپورٹ اور دیگر سامان سے متعلق تفصیلات تسلی بخش نہیں ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا آکسیجن سیلنڈر کی قیمت پانچ ہزار سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ حکومت خاص طور پر صوبائی حکومت شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے، حکومت کہاں ہے؟۔ میں جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہری بھی ہوں قانون کی عمل داری کدھر ہے۔ سیاسی لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے پر آگئے ہیں۔ اٹا رنی جنرل نے کہا حکومت قانون کے اندر رہتے ہوئے سخت فیصلے کررہی ہے حکومت ایسی طاقتوں کے خلاف سرنڈر نہیں کررہی ۔ چیف جسٹس نے کہا پوری حکومت کو 20 لوگ یرغمال نہیں بنا سکتے۔ حکومت کی اگر کوئی خواہش ہو تو حکومت کو کوئی روک نہیں سکتا لاک ڈان کے دوران لوڈ شیڈنگ کس بات کی ہو رہی ہے۔ دکانیں اور ادارے بند پھر لوڈ شیڈنگ کیسی؟ اٹارنی جنرل نے کہا گندم کا بحران پیدا ہوا جس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت ہر کام میں قانون کے مطابق ایکشن لے۔ 16 ملین ٹن گندم سندھ سے چوری ہوگئی، اس کا کیا بنا۔ اٹارنی جنرل نے کہا ٹڈی دل کا مسئلہ صوبائی ہے، اس کے خاتمے کے لئے معاونت کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے نیب کے متوازی این ڈی ایم اے کا ادارہ بن جائیگا۔ یہ ساری چیزیں عوام اور پاکستان کے لئے ڈیزاسٹر ہیں۔ لاک ڈائون کے دوران لوڈ شیڈنگ کس بات کی ہو رہی ہے۔ دکانیں اور ادارے بند پھر لوڈ شیڈنگ کیسی۔ جس ملک کے لوگوں کو 18 گھنٹے بجلی نہیں دینگے وہ بات کیوں سنیں گے۔ جن کو روزگار، صحت اور دیگر سہولیات نہیں دینگے تو وہ حکومت کی بات کیوں سنیں گے۔ یہ ساری چیزیں عوام اور پاکستان کے لئے ڈیزاسٹر ہیں حکومت نے عوام کے ساتھ اپنا معاہدہ توڑ دیا۔ آئین کا معاہدہ ٹوٹے بڑا عرصہ ہو چکا ہے۔ لوگ انتظار میں ہیں کہ انہیں کب انہیں پھل ملے گا۔ لیکن یہ پھل چند لوگوں کو مل گیا۔ پتہ نہیں اس پھل سے ہم اور آپ فائدہ اٹھا رہے ہیں یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ کو اس چیز کا احساس ہونا چاہیے اٹارنی جنرل حکومت سے ہدایات لے کر بتائیں کیا کرنا ہے۔ ہر شہری کو بنیادی سہولیات ملنی چاہئے، اس پر حکومت کا اپنا پلان ہے، ملک میں کرونا کی وبا چل رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کرونا سے نمٹنے کے لئے قانون کا مسودہ بن گیا ہے چیف جسٹس نے کہاٹڈی دل کے خاتمے کے لئے ہمارے تین جہاز کھڑے ہیں۔کیا ہمارے پاس سپرے والے جہاز چلانے کے لئے پائلٹ نہیں ہے۔ لگتا ہے جب بھوک لگی تو گندم بونے چل نکلے۔ حکومت کو ٹڈی دل سے نمٹنے کے لئے ہر وقت تیاررہنا چاہئے۔ سندھ حکومت ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے گاڑیاں منگوا رہی ہے۔ سندھ حکومت نے لاک ڈان کرنا ہے تو کرے لیکن لوگوں کو کھانا،پانی اور بجلی فراہم کرے۔سندھ میں اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پر رپورٹ دینگے۔ چیف جسٹس نے کہاوزیر اعلی سندہ سے بڑھ کر کوئی باختیار نہیں۔ سندھ حکومت اپنے صوبے کو کہاں سے کہاں لے جاسکتی ہے اگر وہ ایسا کرنا چاہے توکراچی کا گجر نالہ بھرا پڑا ہے۔ اس کو صاف کرنے کا کسی کو خیال نہیں۔ فیصل آباد کے علاقہ رضاآباد سے گٹر سے نکلنے والا پانی پورے شہر میں پھیلا ہوا ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کیا پنجاب میں کوئی وزیر اعلی اور حکومت ہے؟ کیا صوبے میں ذخیرہ اندوزی پر چیک ہے؟ پنجاب میں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بارش سے لاہور میں کتنی بستیاں ڈوب گئیں؟کتنوں کو کرنٹ لگا۔ کیا کے فور منصوبے کے لئے سندھ حکومت نے فنڈز مختص کئے ہیں۔ کراچی کے لئے صرف ایک منصوبے کے 99 لاکھ مختص کئے گئے ہیں۔ عدالت نے سندھ حکومت گجر نالے کی صفائی کیلئے رقم کا بندوبست کرنے کا بھی حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت ترقیاتی کاموں کی بجائے چار ارب کی خطیر رقم گاڑیوں کی خریداری پر وضاحت طلب کرلی۔ کیس کی مزید سماعت تین ہفتوں بعد ہو گی ۔

ای پیپر-دی نیشن