"اباجی"
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں سکول سے چھٹی کے بعد گھر آیا تو گلی میں مولوی وہاب مل گیا ۔ اس نے کہا کل لاہور جانا ہے وہاں ایک جلوس مولانا عبید اللہ انور کی قیادت میں ایوب خاں کے خلاف نکلنا ہے ۔ جلوس کے بعد شہر میں گھومیں پھریں گے اور لنڈا بازار کے نان کباب کھائیں گے ۔ اباجی گھر کے اندر بیٹھے یہ گفتگو سن رہے تھے ۔ انہوں نے سختی سے مولوی وہاب کو سمجھایا کہ کیوں لوگوں کے بچوں کو خراب کرتے اور ان کی تعلیم کا حرج کرتے ہو۔ جلوس میں جانا ہے تو خود اکیلے کیوں نہیں چلے جاتے۔ مجھے بھی سمجھانے کی کوشش کی تو میں نے صاف صا ف کہہ دیا کہ یہ "نیکی کا کام "ہے ا ور اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا ، ہر حال میں مولوی وہاب کے ساتھ لاہور جاکر جلوس میں شامل ہوں گا۔ اگلے روز اباجی گھر کو اندر سے تالا لگا کر اپنے طور پر مطمئن ہو گئے مگر میں ہمسایوں کی دیوار پھلانگ کر گلی سے ہوتا ہوا چوک نیائیں میں مولوی وہاب کی دکان پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں سے ہم بس میں سوار ہوئے اور باغ بیرون مستی گیٹ پہنچ گئے۔ جہاں سے جلوس کا آغاز ہونا تھا ۔ انسانوں کا ایک نہ رکنے والا ریلا تھا ۔ جو باغ میں اکٹھا ہو گیا ۔ پہلے جلسہ شروع ہوا پھر ابھی جلوس کے لیے صف بندی ہو رہی تھی کہ پولیس نے اندھا دھند لاٹھی چارج شروع کر دیا ۔ یہ سب کچھ اس سے قبل اخباروں میں پڑھا تھا اب تو خود میں اس کا شکار ہو گیا۔یہ سارا تشدد ایک DSP شریف چیمہ کی قیادت میں ہو رہا تھا ۔ جس نے بذات خود مولانا عبید اللہ انور کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا تو ان کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد ان کے بچائو کے لیے ان کے اوپر لیٹ گئی جن میں، میں بھی شامل ہو گیا ۔ ہم سب کو مولانا سمیت گرفتار کر کے لنڈا بازار کوتوالی پہنچا دیا گیا ۔ دور سے کبابوں کی دوکان تو نظر آئی مگر مولوی وہاب نام کی کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ اگلے روز ہمیں کوٹ لکھپت جیل پہنچا دیا گیا ۔ پیپلز پارٹی ابھی نئی نئی بنی تھی سوائے بابائے سوشلزم ، شیخ رشید کے کوئی بھی پیپلز پارٹی کا کارکن ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ شیخ رفیق سابق گورنر پنجاب تب نیشنل عوامی پارٹی میں تھے ۔ جمعیت علماء اسلام کی وجہ سے علماء کی تعداد ہم میں زیادہ تھی ۔ ساتھ والی بیرک سے اسلم چیمہ نام کا ایک آدمی باقاعدگی سے ہماری بیرک میں آتا ۔ اور خوب خاطر تواضع کرتا ۔ اسلم چیمہ نے لاہور بلکہ پورے پنجاب میں "اچھا پہلوان شوکر والا" کے نام سے بڑی شہرت حاصل کی۔ دوچارروز بعد مولانا عبید اللہ انور کو میو ہسپتال کے "البرٹ وکٹر وارڈ " میںداخل کر دیا گیا ۔ اور اس کے کچھ عرصہ بعد میاں محمود علی قصوری ایڈووکیٹ نے ہماری ضماتیںکرائیں باہر آزاد فضائوں میں آئے تو دروازے پر اباجی موجود تھے ۔ میں تو خوفزدہ ہو گیا کہ ابھی نافرمانی کی سزا ملے گی۔ مگر انہوں نے مجھے گلے سے لگا کر پیا ر کیا۔خودکلامی کے سے انداز میں کہا کہ ابھی تم نے میٹرک بھی پاس نہیں کیا اور میرے ہاتھوں سے نکل گئے ہو ۔ لیکن ان کے چہرے مہرے کا اطمینان بتا رہا تھا کہ شائد وہ اس بات سے مطمئن تھے کہ اب اگر مولانا عبید اللہ انور کے ہاتھوں میں آگیا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر جب میں طلباء سیاست میں آیا تو ہر طرح سے میری مدد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ اقتدار میں74ء سے 77ء تک ہر سال کوئی نہ کوئی تقریر کرنے کے جرم میں مجھے پابند سلاسل کیا جاتا تو خود کھانا لے کر جیل کے دروازے تک باقاعدگی سے پہنچتے ۔ عدالتوں میں کیسوں کی پیروی کرتے ۔ خدا مغفرت کرے بار کے سابق صدر چوہدری فقیر اللہ بٹر کی کہ وہ قدم قدم پر میری مدد فرماتے عدالتوں میں پیش ہوتے اور ضمانتیں کرواتے ۔ بعد میں جب میں تحریک استقلال میں شامل ہو ا تو تحریک استقلال کے راہنما چوہدری محمود بشیر ورک (ایم این اے ) نے ایسی ہی محبت سے نوازا۔ کبھی جیل تو کبھی عدالت کبھی بخشی خانے توکبھی تھانے ، ہر جگہ اپنے شاگرد چوہدری سیف اللہ چیمہ کے ساتھ موجود ہوتے۔ پیپلز پارٹی کے دور کے " بندی خانوں" سے تب نجات ملی جب خود بھٹو صاحب کو اقتدار سے نجات ملی گئی ۔ مگر ابھی یہ سب بلائیں ۔ مصیبتیں اور کلفتیں کہاں ٹلی تھیں کہ پاکستان ضیاء الحق کی بغاوت کے نتیجے میں تاریک دورمیں داخل ہو گیا ۔ مارچ 77ء میںذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پابند سلاسل ہوا تو اکتوبر 77ء میں ضیاء الحق کے مارشل لاء نے دھر لیا ۔ الزام پھر ایک تقریر کا تھا ۔ " پاکستان قومی اتحاد "کی تحریک میں اباجی چوری چھپے جلسوں میں آکر میری تقاریر سنتے ۔ ان کا اندازہ تھا کہ بیٹے نے اگر انہیں تقریر کرتے ہوئے دیکھ لیا تو ہو سکتا ہے کہ جھجک محسوس کرے ۔ ان کا اندازہ بالکل درست تھا کیونکہ ایک بار ایک بہت بڑے جلسہ عام میں میری نظر اپنے بھائی طارق کھوکھر پر پڑی تو واقعی مجھے تقریر میں خود کوئی دم خم نظر نہ آیا ۔اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں صدارت کا انتخاب لڑا تو میرے بھائیوں کو بالخصوص بھائی لقمان کو خفیہ نگرانی کے لیے بھیج دیا کہ کوئی مجھے نقصان نہ پہنچا سکے۔ پنجاب یونیورسٹی میں لیاقت بلوچ صاحب کے مقابلے میں جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑا، اباجی نے بساط بھر خرچہ تو پورا کیا ۔یونیورسٹی کا چکر لگاتے کہ بیٹا خیریت سے تو ہے جس کا پتہ مجھے بعد میں چلتا ۔ میں عدالت سے باہر نکلا تو اباجی مجھے راہداری میں مل گئے ۔ اباجی نے اپنے آنسوئوں کو بہنے کی اجازت نہ دی کہ باپ روپڑا تو کہیں لاڈلا بیٹا ہمت نہ کھو دے ۔ اک بار تو آنسو چھلک ہی پڑے تھے کہ چلتے چلتے جیل کا مین گیٹ آگیا۔ جیل کا بڑا آہنی گیٹ کھلا ۔ اباجی نے گلے لگایا تو آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی ۔ میں ان کے سینے سے لگ کر خوب رویا۔ جب ذرا طبیعت سنبھلی تو اباجی کو بالکل نارمل پایا ۔
انہوں نے کہا"زندگی بھررزق حلال کے لقمے ہاتھ سے توڑ توڑ کر اپنے ہاتھوں سے تمھارے منہ میں ڈالے ہیں زندگی بھر تمہیں اچھا کھانے کو دیا ۔ اکھاڑے میں وزش بھی کروائی۔ کبھی گھبرانا نہیں میرے بیٹے ہوتو جیل میں سینہ تان کر چلنا ۔ کوڑے لگنے سے تکلیف تو بہت ہو گی مگر مجھے یقین ہے کہ اللہ تمہاری زندگی کی حفاظت کرے گا۔ جب میں نے اماّں جی کے ردّ عمل کے بارے میں پوچھا تو پھر اتنا بلا کا جگر دار باپ بھی پگھل کر رہ گیا ۔ اتنے میں جیل کا بڑا گیٹ کھولا اور ـ" ایک قیدی وصول شد" کی رسید دے کر بند ہو گیا ۔ آج سے لگ بھگ 35 سال قبل ہاتھ پکڑ کر چلنے والا ابا جی (غلام نبی کھوکھر) ہاتھ چھڑا کر رخصت ہو گئے ۔تب یہ خبر میں نے نیو یارک میں سنی اور پچھا ڑ یں کھا کر گر گیا ۔ دو روز بعد ان کی قبر پر کھڑاضیاء الحق کا ماتم کرتا رہا۔
(ختم شد)