’’ کوئی تو میرا بھی درد جانے ، کوئی تو اس سے حساب مانگے‘‘
اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) مقبوضہ کشمیر کے علاقے سوپور میں بھارتی درندگی کا واقعہ پوری دنیا کے علاوہ خود بھارت میں بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی تنظمیں اس سفاکی کیلئے مودی سرکار اور ہندوستانی فوج سے جواب طلب کر رہی ہیں۔ اس واقعے کے عالمی سطح پر اجاگر ہونے کے بعد ہندوستانی فوج نے اپنی سفاکیت پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ صفائی گھڑنے کی کوشش کی کہ 60 سالہ بشیر احمد دہشتگرد تھا جو کہ کراس فائرنگ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بھارتی اعتدال پسند ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وہ دہشتگرد تھا تو اپنے تین سالہ پوتے کو ساتھ لے کر دودھ لینے کیوں جا رہا تھا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قریب سے گذرنے والی قابض بھارتی فوجیوں کی ٹولی نے محض تفریحِ طبع کیلئے فائرنگ کر کے اس بزرگ شخص سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا، محض یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد انکے جسد خاکی کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ بھارت کے کئی دیگر علاقوں کی مانند مغربی بنگال کے مرشد آباد میں بھی سوپور واقعے کی مذمت میں ایک ریلی نکالی گئی، مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر معصوم کشمیریوں کی تصاویر آویزاں تھیں اور ان کیساتھ یہ اشعار درج تھے ’’ وہ نفرتوں کے سوال کر کے محبتوں کے جواب مانگے، کہ میرے حصے میں کانٹے لکھ کر مجھ سے تازہ گلاب مانگے، کوئی تو میرا بھی درد جانے کوئی تو اس سے حساب مانگے‘‘۔ واضح رہے کہ مرشد آباد تاریخی دریائے ہوگلی کے کنارے واقعہ ہے، مسلم یہاں اکثریت میں ہیں جو کل آبادی کا ساڑھے 66 فیصد بنتے ہیں۔ یہاں پر وقتاً فوقتاً مسلم کش فسادات برپا ہوتے رہتے ہیں ۔