شیخ رشید، علی زیدی اور فیصل واڈا !!!
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ مائنس ون ہوا تو مائنس تھری ہو گا۔ وزیر موصوف کی اپنی وزارت کے علاوہ ہر جگہ نظر ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی کے وزرائ کے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ رویوں سے عوامی مسائل میں اضافہ ہوا ہے تو کرونا وائرس نے معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان حالات میں جھاگ والے وزیر صاحب کے ایسے بیانات ملک میں انتشار کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہیں اس بیان کی وضاحت ضرور کرنی چاہیے کیونکہ مائنس تھری سے کیا مراد ہے اگر مائنس تھری سے مراد عمران خان کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہیں تو شاید پارٹیاں بدلنے کے ماہر اور مستند بے وفا شیخ رشید شاید یہ بھول چکے ہیں کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سیاست سے باہر ہیں۔ اس کے بعد وہ انہیں کہاں سے مائنس کرنا چاہتے ہیں کیا شیخ صاحب ان کی زندگی کے دشمن بن چکے ہیں۔ کیا وہ انہیں دنیا سے مائنس کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں وزیر ریلوے کا یہ بیان ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ یہ ملک و قوم کی خدمت ہرگز نہیں بلکہ ایسے بیانات صرف اور صرف اشتعال انگیزی اور نفرت ہی پھیلتی ہے۔ کیا شیخ رشید پارلیمنٹ میں صرف اس لیے ہیں کہ نفرت پھیلاتے رہیں۔ وہ میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو خود پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ وہ خوش قسمت اور قوم بدقسمت ہے کہ ٹرینوں کے مسلسل حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود وزارت پر قائم ہیں۔ ہر روز ایک ٹرین لٹک جاتی ہے شیخ صاحب یاد رکھیں مائنس ون کے بعد ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ہمیں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی سے توقع نہیں کہ وہ غدار ہوں لیکن آپ سند یافتہ لوٹے ہیں۔ انیس سو ستانوے سے آج تک اقتدار کی اتنی قلابازیاں ہیں شیخ رشید کو خود بھی یاد نہیں ہو گا۔ زمانہ گواہ ہے کہ آپ نے بھی کبھی کسی سے وفاداری نہیں کی اور جو کچھ آپ عمران خان کے بارے کہتے رہے ہیں وہ انہیں بھولا نہیں ہے درحقیقت عمران خان ابھی اسے یاد کرنا نہیں چاہتے جس دن انہیں یاد آیا اس دن آپ کی بھی خیر نہیں ہے۔ شیخ رشید کو اس ذو معنی بیان کی وضاحت ضرور کرنی چاہیے کہ مائنس تھری سے کیا مراد ہے۔ انہیں ویسے بھی چاہیے کہ ایسی ذومعنی گفتگو سے پرہیز کریں۔ ممکن ہے یہ ان کی زندگی کی آخری وزارت ہو انہیں دوبارہ موقع نہ ملے تو اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کوئی نیک کام کر جائیں۔ کام کے لیے انہیں منہ بند رکھنا پڑے وہ یہ کر نہیں سکیں گے کیونکہ جھاگ بہت تنگ کرتی ہے۔ جمعہ کو شیخوپورہ میں جیس جانیں گئی ہیں کل شالیمار لٹک گئی ہے۔ شیخ رشید کو چاہیے کہ اپنے محکمے کی کارکردگی بارے جواب دیں اور اسی پر توجہ رکھیں یہ سیاسی گفتگو کر کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر روک دی گئی ہے کیونکہ تعمیر نقشے کی منظوری کے بغیر ہو رہی تھی۔ ترجمان سی ڈی اے کے مطابق اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے مطابق نقشے کی منظوری کے بعیر عمارت کی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ گذشتہ کئی روز سے اس مندر کی تعمیر پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے مفتی منیب الرحمان اور مفتی تقی عثمانی اس منصوبے کی مخالفت کر چکے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے بھی واضح الفاظ میں اس کی مخالفت کی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنی پوزیشن ضرور کلیئر کرنی چاہیے۔ آخر اس تعمیر کی کیا ضرورت ہے۔ کیا اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مندر کی فوری تعمیر ہے اور اگر یہ کام نہیں ہوتا تو بڑے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
عوام کے لیے بری خبر یہ ہے کہ سادہ روٹی آٹھ روپے، خمیری روٹی اور نان کی قیمت بارہ روپے مقرر کر دی گئی ہے۔ تندور ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ آٹے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جس قیمت پر آٹا ملے گا اسی پر روٹی، نان فروخت کریں گے۔اس سے بھی پریشان کن خبر یہ ہے کہ فلور ملز مالکان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مقرر کردہ قیمت میں آٹا بیچنے کے احکامات کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ نان اور روٹی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے وہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا جو روزگار کی تلاش میں یا روزگار کے سلسلے میں شہروں کی طرف رخ کرتا ہے اس طبقے کا اور کچھ نہیں تو کم از کم تین ہزار روپے ماہانہ خرچ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کیا ان کی آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس اضافے کا بوجھ کون برداشت کرے گا اور اگر آئندہ برس حکومت گندم پر سبسڈی نہیں دیتی تو اس کا بوجھ بھی عام آدمی پر ہی آنا ہے۔ یہ قیمتیں خاموش معاہدے کے نتیجے میں ہی بڑھی ہیں۔ اب بھی وقت ہے حکومت اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے جو پچاس ارب یوٹیلیٹی اسٹورز کو دیے ہیں یہ بجٹ صوبوں میں یکساں تقسیم کر دیا جائے تاکہ عام آدمی یا وہ دیہاڑی دار جس کی ہر وقت وزیر اعظم کو فکر رہتی ہے ان کا ہی بھلا ہو جائے گا۔
فیصل واڈا اور علی زیدی اور ان جیسے دیگر افراد وزیراعظم عمران خان کی توجہ مسلسل اصل مسائل سے ہٹانے کی کوششوں میں رہتے ہیں یہ اور ان جیسے دیگر غیر سنجیدہ کردار عمران خان کے ایک سنجیدہ اور مدبر وزیراعظم بننے کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ ان کا کردار اپنی جگہ ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کو خود بھی سوچنا ہو گا کہ آخر وہ کس طرف جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کو اب پاکستان تحریکِ انصاف کا سربراہ بن کر نہیں بلکہ پاکستان کا وزیر اعظم بن کر سامنے آنا ہو گا۔ لازم نہیں کہ ہر وقت اور اپوزیشن کی ہر بات کا جواب ان کی زبان میں دیا جائے اگر حکومت اپوزیشن کی زبان میں بات کرنے لگے تو یہ اپوزیشن کی کامیابی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے سنجیدہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن کو اپنے رویے کی تقلید پر مجبور کرے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جب تک علی زیدی اور فیصل واڈا جیسے کردار عمران خان کے اردگرد موجود ہیں اس وقت تک ایسا ممکن نہیں ہے۔ فیصل واڈا نے صحافیوں کے لیے جو زبان استعمال کی ہے اس پر الگ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ منتخب نمائندوں کو کنٹینر سے اتر کر پارلیمنٹ میں بیٹھنے اور میڈیا کا سامنا کرنے کا سلیقہ آ جانا چاہیے جب آپ حکومت میں ہوتے ہیں تو ہر قسم کی تنقید برداشت کرنا پڑتی ہے۔ علی زیدی کے بارے جو کچھ کراچی سے سننے میں آ رہا ہے اور جو سعید غنی نے کہا ہے اس پر عمران خان کو تحقیغ ضرور کرنی چاہییں اور اگر الزامات میں حقیقت ہے تو پھر اپنے ان چہیتے افراد کے خلاف ضرور کوئی بڑا فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ لوگ کسی بھی طرح نجیب ہارون جیسے نظریاتی اور بانی کارکن سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے لاہور جیسے شہر میں ہر گھنٹے میں چار مرتبہ لائٹ جاتی ہے۔ کبھی کچھ ڈراپ ہوتا ہے، کبھی کچھ گر جاتا ہے، کہیں کچھ اٹک جاتا ہے اور کہیں کچھ ٹرپ کر جاتا ہے اور کہیں کوئی وجہ پتہ نہیں چلتی اور کہیں بجلی جانے کی وجہ اس لیے معلوم نہیں ہوتی کہ فون اٹینڈ نہیں ہوتا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ کارخانے بند ہیں، ریسٹورانٹس بند ہیں، شاپنگ مالز، مارکیٹیں بند ہیں، معمول کی زندگی درہم برہم ہے لیکن بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں حقیقت سامنے آنی چاہیے۔