افغانستان: بارودی سرنگیں پھٹنے سے 6 طالبان ہلاک‘ اشرف غنی کا مشیر کرونا سے ہلاک
گردیز (شنہوا) افغانستان کے مشرقی صوبوں پکتیا اور پکتیکا میں دو الگ الگ واقعات میں اپنی ہی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں 6 طالبان عسکریت پسند مارے گئے۔ یہ بات ہفتے کو فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتائی گئی۔ افغانستان کے صدر کے معاشی ترقی‘ تجارت اور تخفیف غربت سے متعلق خصوصی مشیر محمد یوسف غضنفر کوویڈ 19 کی وبائی بیماری سے انتقال کر گئے۔ یہ بات صدارتی محل نے ہفتہ کو ایک بیان میں بتائی۔ یوسف غضنفر کونوول کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد کچھ دن قبل ترکی منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ عبدالرشید دوستم افغان جنگجو کمانڈر سے مارشل کیسے بن گئے، 66 سالہ عبدالرشید دوستم کو افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے مارشل کا عہدہ دیا گیا ہے۔ ان پر مخالفین کے اغوا اور ریپ سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ عبدالرشید دوستم اس سے قبل 2014 میں قائم ہونے والی اشرف غنی حکومت کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ افغانستان کے ایک طاقتور جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم، جن پر دہائیوں سے مخالفین کے اغوا اور ریپ سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں، کو ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز دیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق 66 سالہ عبدالرشید دوستم کو افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے مارشل کا عہدہ دیا گیا ہے۔ وہ افغانستان میں یہ عہدہ حاصل کرنے والے تیسرے فوجی رہنما ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کرنے والی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ'میں آپ کو ملک کا اعلیٰ ترین فوجی عہدہ حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اشرف غنی کے دفتر کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن افغان میڈیا کے مطابق عبدالرشید دوستم کو مارشل کا عہدہ دینے کا فرمان صدر اشرف غنی نے جاری کیا ہے۔ دوسری جانب دوستم کے ترجمان نے اس فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپس بھی عبدالرشید دوستم پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ جن میں 2001 میں امریکی حملے کے بعد ہزاروں طالبان قیدیوں کا قتل بھی شامل ہے۔ تاہم عبدالرشید دوستم ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ کابل سے تعلق رکھنے والے صحافی سید ناصر موسوی کہتے ہیں کہ 'گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان کے تنازعے میں ملوث تمام افراد مسلح ملیشیاز رکھتے ہیں اور طالبان دور کے بعد بھی انسانی حقوق افغانستان کی سیاست کا شکار بنتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فرد کا احتساب نہیں کیا گیا۔'گذشتہ برسوں میں عبدالرشید دوستم کئی قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہیں۔ 2018 میں ان پر کابل میں ہونے والے حملے میں 23 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔