کرونا میں کمی آئی مگر ایس او پیز پر سختی سے عمل کی بدستور ضرورت
این سی او سی کی تشکیل کے 100دن، وزیراعظم اور آرمی چیف کا بہترین نتائج پر اطمینان کا اظہار
وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا دورہ کیا، دورہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے قیام کے ایک سو ایام مکمل ہونے پر کیا گیا، اجلاس میں وفاقی وزرائ، بری فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور دوسرے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے، صوبے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ کیسے سمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی پر عمل کے اچھے نتائج سامنے آئے اور اس سے زندگی اور ضروریات زندگی، معیشت کو رواں دواں رکھنے ،غریبوں اور ورکنگ کلاس کے مسائل اور بیماری کی روک تھام میں توازن قائم کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کی اکنامک آئوٹ لک کے مطابق 30 ممالک کی صف میں سے پاکستان منفی0.4 فیصد گروتھ سے مثبت1-1فی صد کی گروتھ حاصل کرے گا۔ وزیراعظم نے این سی او سی کی کاوشوں کو سراہا جس نے وبا کا مقابلہ اچھے انداز سے کیا اور ملک بھر میں مربوط اقدامات کو یقینی بنایا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی این سی او سی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ سینٹر نے صورتحال پر روزمرہ کی بنیاد پر نظر رکھی ہوئی ہے اور قابل بھروسہ ڈیٹا بیس اور ایس او پیز تشکیل دیئے۔ این سی او سی وبا کے مقابلے آگے بڑھ کر قیادت فراہم کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قوم نے بھی قابل تعریف جذبہ دکھایا، انہوں نے ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف کے کرونا وبا کے مقابلہ میں فرنٹ لائن کردار کو خراج تحسین پیش کیا۔
کرونا وباء نے بدستور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس سے مکمل نجات ویکسین کی تیاری یا پھر قدرت کاملہ کی کرم نوازی ہی سے مل سکتی ہے۔ کرونا نے دنیا بھر میں 5 لاکھ تیس ہزار انسانوں کو اپنا لقمہ بنایا ہے۔ متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو ایک کروڑ پندرہ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ کرونا نے عالمی معیشت کو بھی شدید زک پہنچائی ہے۔ اموات مریضوں اور معیشت کے حوالے سے پاکستان بھی متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس سے پانچ ہزار کے قریب اموات ہو چکی ہے۔ مریض سوا دو لاکھ تک پہنچ گئے۔ آج تک کرونا سے بچائو کی دنیا کے پاس ایک ہی تدبیر ’’احتیاط‘‘ ہے۔ پاکستان میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ کچھ ممالک نے کرونا کا پھیلائو روکنے کے لئے مکمل لاک ڈائون کیا جس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔ پاکستان میں بھی ایسے لاک ڈائون پر زور دیا جاتا رہا مگر وزیراعظم عمران خان نے ایسی تجاویز سے اتفاق نہیں کیا۔ اس کی وجہ پاکستان میں کروڑوں افراد کے روٹی روزگار کے سلسلے کو جاری رکھنا تھا۔ کرونا کے باعث بیروزگاری میں اضافہ ہوا، لوگوں کی مشکلات بڑھی ہیں اگر کرفیو جیسا لاک ڈائون کیا جاتا تو بھوک اور قحط سے انسانی المیہ کے جنم لینے کے خدشات موجود تھے۔
حکومت نے کرونا کا پھیلائو روکنے، اس حوالے سے ایس او پیز بنانے اور دیگر اقدامات کے لئے این سی او سی کی تشکیل کر دی۔ اس کی کوششوں کے بہتر نتائج دیکھنے میں آئے۔ سخت لاک ڈائون کے بغیر کرونا کا ممکنہ حد تک پھیلائو کم ہوا۔ گزشتہ ماہ جون کے وسط میں روزانہ اموات ڈیڑھ سو تک جا پہنچی تھیں۔ سات ہزار تک مریض بھی سامنے آنے لگے۔ اب یہ گراف گر چکا ہے۔ آج کی رپورٹ کے مطابق 80 افراد جاں بحق اور چار ہزار سے کم کیس سامنے آئے ہیں اور یہ ان حالات میں ہو رہا ہے کہ ملک کرونا ٹیسٹوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ این سی او سی صوبوں کی انتظامیہ ڈاکٹرز،پیرا میڈیکس اور حکومت کی جاری کردہ ایس او پیز پر عمل کرنیوالے شہریوں کو جاتا ہے۔
پاکستان میں کرونا کے پھیلائو میں خاطر خواہ کمی آ رہی ہے جبکہ دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے صورت حال حوصلہ شکن ہے۔ رپورٹس کے مطابق دنیا میں پھیلائو میں پھر تیزی آ گئی ہے۔ اب تک کرونا سے پانچ لاکھ تیس ہزار اموات ہو چکی ہیں تاہم عالمی سطح پر بھی یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جہاں ایک کروڑ بارہ لاکھ افراد متاثر ہوئے وہیں 65 لاکھ افراد دوا کی عدم دریافت کے باوجود صحت یاب ہوئے ہیں۔ پاکستان میں صحت مند ہو کر زندگی کے معمولات کی طرف لوٹنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہے۔ گزشتہ روز بھی 12 ہزار افراد نے اس وبا سے نجات حاصل کی۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کرونا ختم ہو گیا اور زندگی 100 دن قبل کی طرح معمول پر آ گئی ہے۔
کرونا کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے ان سے ویکسین کی تیاری تک احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کر کے بچنے کے لئے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ کچھ لوگ کرونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ وہ نہ صرف اپنے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی خطرات کا باعث بن رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ حکومتی سطح پر سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔