بدھ ‘ 16؍ذیقعد 1441 ھ‘ 8؍جولائی 2020ء
پی آئی اے نے اندرون ملک کرایوں میں مزید کمی کا اعلان کر دیا
ظاہری بات ہے جب جہاز گر رہے ہوں تو ان میں سفر کون کرے گا۔ اب مسافروں کی کمی نے پی آئی اے کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ہوگا ورنہ چند روز میں دوسری بار کرایوں میں کمی واقعی کمال کی بات ہے۔ جو اس لاجواب سروس والوں سے ممکن نہیں تھی۔ اب اس طرح کے پُرکشش اقدامات کرکے پی آئی اے نے اپنے روٹھے مسافروں کو منانے کی جو کوشش کی ہے‘ خدا کرے وہ کامیاب ہو۔ اس وقت پٹرول کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر خسارے میں چلنے والی یہ قومی ایئر لائن اپنی بقاء کیلئے کوشاں ہے تو عوام کو چاہئے کہ وہ اس کا ساتھ دیں۔ وفاقی وزیر ہوا بازی کی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیں۔ وہ تو وزیر ہوا بازی کم وزیر نشانہ بازی زیادہ لگتے ہیں۔ اسی لئے اب قومی ایئر لائن ’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘ کے مشورے پر عمل کر رہی ہے اور اب تو بات کرایوں میں کمی تک آگئی ہے۔ کچھ دن بعد کہیں پی آئی اے والے مان بھی جائو صنم تم کو میری قسم
’’یہ رعایت‘‘ جو بیت گئی تو آئے گی پھر کہاں
کہتے ہوئے مسافروں کو مناتے نظر آئیں گے۔ اگر ہماری قومی ایئر لائن اسی طرح جہازوں کی حالت‘ مسافروں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں اور وقت کی پابندی کو اپنا شعار بنائے تو مسافر ازخود پہلے کی طرح اس کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
مون سون کی پہلی بارش نے کراچی میں نکاسی آب کا پول کھول دیا
یہ تو ابھی ابتدا ہے‘ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اس پہلی بارش نے ہی جل تھل ایک کر دیا۔ کراچی کے کئی علاقے گھنٹوں پانی میں ڈوب گئے۔ شہری سڑکوں کو ندی نالے میں تبدیل ہوتے دیکھتے رہے۔ گزشتہ برس جو ابر برسا تھا تو اس کے بعد بڑے زور و شور سے کراچی میں نکاسی آب کی حالت بہتر بنانے کے بڑے بلندوبانگ دعوے کئے گئے۔ بڑے زوروشور سے صفائی کی مہم چلائی گئی مگر کیا مجال ہے جو ایک بھی نالہ مکمل صاف ہوا ہو۔ تجاوزات سے پاک ہوا ہو۔ وہی گندگی سے پر نالے جن کے کناروں پر گندگی کے ڈھیر جم کر زمین کی طرح سخت ہو گئے۔ ہر جگہ نالے کے کناروں پر تجاوزات کھڑی ہیں۔ لوگوں نے مکان اور دکانیں بنا لی ہیں۔ اب اس بارش کی وجہ سے ایک بار پھر گٹر ابل پڑے‘ نالے بپھر گئے۔ یوں سڑکیں ندیوں میں نالوں میں بدل گئیں جن میں اب انتظامیہ کشتیاں چلا کر بآسانی سیلاب سے متاثر علاقوں کا دورہ کر سکتی ہے۔ ہاں البتہ اندرون سندھ صحرائی علاقے کے لوگ اس برسات سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ ان کے سوکھے چمن میں پھوار پڑنے سے ہی ہریالی چھا جاتی ہے۔ وہ تو سارا سال ابر کرم کے برسنے کے منتظر رہتے ہیں۔ لاہور والے تو ابھی تک حبس اور لو کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ بادل چھاتے ہیں مگر بن برسے گزر جاتے ہیں اور لاہوری…؎
وہ ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ
کہتے ہوئے بار بار آسمان پر چھائے بادلوں کو دیکھ رہے ہیں۔
٭…٭…٭
ارطغرل کی حلیمہ سلطان پشاور زلمی کی ایمبسیڈر بننے کو تیار
یہ فیصلہ انہوں نے پشاور زلمی کے کھلاڑیوں کے کھیل سے متاثر ہوکر کیا ہے یا پاکستانیوں کی اپنے کردار کی پسندیدگی پر یہ تو اسرا بل جیک ہی جانتی ہونگی۔ پشاور زلمی کے چیئرمین جاوید آفریدی نے انہیں یہ درخواست کی تھی جسے حلیمہ سلطان نے بخوشی شرف قبولیت بخشا۔ اس وقت ڈرامہ ارطغرل پورے ملک میں مقبولیت کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ ڈرامے کی ہیروئن تو کیا مرد اور کیا خواتین سب میں مقبول ہیں۔ یہ ڈرامہ شاید خود ترکی میں بھی اتنا مقبول نہ ہوا ہوگا جتنا پاکستان میں ہے۔ ارطغرل کی تاریخی شخصیت اپنی جگہ مگر ڈرامے میں جس طرح حسن و عشق‘ نفرت‘ عداوت‘ کفار سے جنگ اور مذہبی رنگ کو نمایاں کیا گیا۔ وہ بے مثال ہے۔ اس طرح کم از کم ہمارے ان لوگوں کے یا ان ڈرامہ نگاروں کے منہ بند ہونے چاہئیں جو کہتے پھرتے ہیں کہ سامعین ڈراموں میں فحاشی اور بولڈ کرداروں کو پسند کرتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب جب ٹی وی ڈرامے کا عروج تھا کیا اس وقت ان ڈراموں میں یہ سب کچھ دکھایا جاتا تھا جو آج دکھایا جاتا ہے۔ پہلے تو سب گھر والے مل بیٹھ کر ڈرامے دیکھتے تھے‘ اب تو دیکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ذہنی کوفت ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز کے ڈرامے دیکھ کر ۔
٭…٭…٭
عزیر بلوچ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹی نے نیا تنازع کھڑا ک دیا
حکومت سندھ اور وفاقی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عزیر بلوچ ہو یا نثار مورائی‘ ان دونوں میں سے کوئی دودھ کا دھلا نہیں۔ عزیر بلوچ تو عدالت کی پیشیوں میں مجرم کی طرح آتا جاتا رہا ہے مگر یہ نثار مورائی تو باقاعدہ ہر پیشی پر اپنے درجن بھر کارندوں کو دیکھ کر جن کا کام ہی نعرے بازی ہوتا ہے‘ وکٹری کا نشان بنائے پھرتا تھا۔ اب اول تو سندھ حکومت نے یہ رپورٹ تاخیر سے پیش کرکے خود ہی شکوک و شبہات کو جنم دیا‘ دوسری بات یہ ہے وفاقی وزیر علی زیدی ایوان میں ایک رپورٹ پیش کرکے اسے اصل جی آئی ٹی رپورٹ کہہ رہے ہیں۔ یوں یہ تنازع ایک نئی سیاسی افراتفری کہہ لیں یا چپقلش کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ مرکزی حکومت اپنی رپورٹ پر زور دے گی اور سندھ حکومت اپنی رپورٹ پر۔ یوں رپورٹ متنازعہ ہو سکتی ہے جس کا فائدہ کس کو ہوگا۔ یہ سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں۔ ضرورت تو یہ ہے کہ ملزم جو بھی ہو‘ اسے اس کے جرم کی قرار واقعی سزا ملنی چاہئے مگر جب تک ملزمان کو تھانوں میں‘ کچہریوں میں‘ ہسپتالوں میں‘ جیلوں میں وی آئی پی پروٹوکول ملتا رہے گا‘ اس وقت تک ایسا نہیں ہو سکتا‘ لیکن یاد رکھنا چاہئے ایک آخری عدالت لگنا ابھی باقی ہے جس میں سب کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ وہاں کوئی ظالم کو بچانے والا نہیں ہوگا۔