جمہوریت کی بحالی کیلئے میاں طفیل محمد کی جدوجہد
اس سے یہ بات بخوبی سمجھ آجانی چاہیے کہ چوبیس اکتوبر انیس سو چونء کو غلام محمد گورنر جنرل پاکستان نے ہماری مجلس دستور ساز برخواست کر کے پاکستان کی آزاد ڈومین کو برطانوی ایمپائر میں مدغم کر دیا تھا۔
آتھ دس روز انتظار کرنے کے بعد سابق امیر جماعتِ اسلامی میاں طفیل محمد فرماتے ہیں (جو اُس وقت اپنی رہائی کے بعد نئے نئے قیم ّ یعنی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی مقرر ہوئے تھے اور مولانا مودودی بدستور قادیانی مسئلہ پر کتابچہ لکھنے پر جیل میں تھے اور مولانا امین احسن اصلاحی قائم مقام امیر جماعت اسلامی تھے) میں نے عرض کیا کہ جناب اتنے بڑے ظلم اور حادثہ کے بعد بھی کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی جماعت ِ اسلامی کو کچھ کرنا چاہیے ،مولانا اصلاحی نے فرمایا کہ آپ جماعت ِ اسلامی کی طرف سے بیان دے دیں چنانچہ طفیل محمد نے ایک بیان مرتب کر کے پریس کو بھیج دیا کہ گورنر جنرل کا اسمبلی برخواست کرنے کا اقدام سراسر ناجائز ہے اور گورنر جنرل کو پاکستان کے اعلیٰ ادارہ کو ختم کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں، اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔ میاں طفیل محمد دس نومبر انیس سو چون کو مولانا تمیز الدین سے ملاقات کی غرض سے کراچی روانہ ہوئے اور اپنے بہنوئی ٹھیکیدار رشید صاحب سے مبلغ پانچ ہزار روپے لیئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مولوی تمیز الدین کو مقدمہ عدالت لے جانے کیلئے رقم کی ضرورت پڑے گی۔میاں طفیل محمد فرماتے ہیں کہ میں امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد کو ساتھ لیکر کلفٹن پہنچا جہاں مولوی تمیز الدین خاںابھی تک اسپیکر کی سرکاری رہائش گاہ میںقیام پذیر تھے۔ وہاں سناٹا طاری تھا ،گیٹ پر دو تین سپاہی موجود تھے ۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو مولوی صاحب سہمے ہوئے باہر نکلے، مکان میں ان کا صرف ایک ملازم تھا تاہم وہ دعا سلام کے بعد ہمیں اندر لے گئے، وہ اس وقت اپنے ملازم سے بھی خوفزدہ تھے کہ وہ ان کی جاسوسی پر مقرر ہے۔
میاں طفیل محمد فرماتے ہیں ’’ میں نے اپنی آمد کی غرض بیان کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے برخواست ہونے کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی اور عرض کیا : جناب آپ اسپیکر قومی اسمبلی ہونے کے ناطے ملک کی سب سے مقتدر شخصیت ہیں اگر آپ بھی اس صورتحال پر خا موش رہیں گے تو ملک میں ہمیشہ کیلئے آمریت قائم ہونے کا راستہ ہموار ہوجائیگا ۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں‘‘ ۔
مولوی تمیز الدین نے جواباً کہا: حکمرانوں نے مجھے یہاں نظر بند کر رکھا ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں، باہر مسلح گارڈ کھڑی ہے، اس صورتحال میں کیا کرسکتا ہوں ــ‘‘۔بالآخر میاں طفیل محمد کے دلائل سے متفق ہوتے ہوئے مولوی تمیز الدین مقدمہ چیلنج کرنے کیلئے رضا مند تو ہوگئے لیکن کہنے لگے مقدمہ دائر کرنے کیلئے میرے پاس وسائل نہیں۔ میاں طفیل محمد نے ان کے جواب پر فوراً وہ پانچ ہزار روپے کی رقم مولوی تمیز الدین کے حوالے کر دی اور کہا : ’’ آپ اللہ کا نام لے کر قدم بڑھائیں ،اللہ کی نصرت اور قوم کی تائید آپ کے ساتھ ہے ‘‘۔ ہم دوسرے لوگوں کو بھی آپ کی مدد کیلئے تیار کرتے ہیں۔ اس کے بعد میاں طفیل محمدنے مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل منظر عالم کو اسپیکر صاحب کا ساتھ دینے کیلئے آمادہ کیا نیز مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر الٰہی علوی، قاضی شریح الدین سے بھی ملاقات کی اور انہیں معاملہ کی سنگینی سے آگاہ کرتے ہوئے راضی کرلیا۔ اگلے دن سردار عبدالرب نشتر کے دفتر میں تمام افراد جن سے ملاقات کی گئی تھی میاں طفیل محمدنے میٹنگ کی اور اسی میٹنگ میں مفصل گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ ’’ مولوی تمیز الدین کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں گورنر جنرل کے اقدام کو چیلنج کرنے کی غرض سے رٹ دائر کی جائیگی ‘‘۔ چنانچہ یہ رٹ سندھ ہائیکورٹ میں دائر کردی گئی۔سندھ ہائیکورٹ نے نوفروری انیس سو پچپن کو فیصلہ سناتے ہوئے اسمبلی توڑنے کے حوالے سے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔
سندھ ہائیکورٹ کے فل بنچ کی سربراہی چیف جسٹس کا نسٹن ٹائن نے کی۔
مرکزی حکومت نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ فیڈرل کورٹ کیلئے تمیز الدین نے وکیلوں کی فیس میں مدد کیلئے اپنے گہرے رنج اور دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا:’’قومی اہمیت کے اس معاملہ میں بھی مسٹر ابراہیم اسماعیل چندریگر فیس لیے بغیر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں ‘‘۔
میاں طفیل محمدفرماتے ہیں کہ ’’ میری درخواست پر میرے بہنوئی چوہدری عبدالرشید نے دوسری بار پھر پانچ ہزار روپے عنایت کیے یہ رقم قائداعظم کے دست راست مسٹر ابراہیم چند ریگر صاحب کو فیس کیلئے دے دی گئی۔فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے کثرت رائے سے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم اور گورنر جنرل مسٹر غلام محمد کے اقدام کو درست قرار دے دیا، فیڈرل کورٹ کے اس فل بنچ میں چیف جسٹس محمد منیر جسٹس ایس۔ اے رحمان ، جسٹس کارنیلیئس ، جسٹس محمد شریف اور جسٹس ابوصالح محمد اکرم شامل تھے۔
تاہم فیڈرل کورٹ نے دستور سازی کیلئے اسمبلی از سرِ نو تشکیل دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’’ دستور بنانے کا ذریعہ مجلس دستور ساز ہی ہے ‘‘۔ یاد رہے کہ گورنر جنرل غلام محمد چاہتے تھے کہ دستور کیلئے اپنے نامزد کردہ افراد پر مشتمل مجلس دستور ساز بنادیں جسے عدالت عظمیٰ نے منظور نہیں کیا۔
تو یہ ہے وہ جدو جہد جو دائیں بازو کی ایک مذہبی جماعت کے لیڈر میاں طفیل محمد نے جمہوریت کی بحالی کے لئے کی۔ ہائی کورٹ میں انہیں کامیابی ملی مگر سپریم کورٹ آڑے آ گئی اور نظریہ ضرورت ایجاد کیا گیا جو بعد میں بھی ہر غیردستوری اقدام کو جواز بخشنے کے لئے استعمال ہوتا رہا۔(میاں طفیل محمدکی خود نوشت راہ نجات سے شکریئے کے ساتھ)