چین بھارت کشیدگی:جمہوریت آمریت کا یدھ
چین کے اعصاب کا امتحان لینے کے لئے امریکہ ’’چین کے جنوبی سمندر‘‘ میں اپنی فوجی قوت جمع کررہا ہے۔ ’ساوتھ چائنا سمندر‘ دنیا بحرالکاہل سے متصل بحر ہے۔ بحرالکاہل دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے جو امریکہ، ایشیاء اور آسٹریلیا کے درمیان واقع ہے۔ ’سائوتھ چائنا سمندر‘ ایک بہت اہم بحری گزر گاہ ہے۔ آبنائے ملاکا اور کریماٹا سے تائیوان کی بحری گزر گاہ تک۔ یہ 35 مربع کلومیٹر کا رقبہ بنتا ہے۔ دنیا کی ایک تہائی بحری ٹریفک یہاں سے گزرتی ہے۔ اس سے اس آبی راستے کی تزویراتی اہمیت کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ یہاں ناکہ بندی کا مطلب پوری دنیا کی ناکہ بندی کرنا ہے۔ یہاں زیرزمین معدنی وسائل کا خزانہ موجود ہے۔ جنوب مشرقی ایشاء کی فوڈ سکیورٹی کا دارومدار بھی اسی سمندر پر ہے۔
امریکہ طویل عرصے سے ’ساوتھ چائنا سمندر‘ میں چین کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ پہلے عالمی عدالت انصاف میں چھیڑ خانی کی گئی اور ایک فیصلہ لیاگیا جسے چین نے مسترد کرکے سوال پوچھا کہ ’’کون سی عالمی عدالت‘‘۔ گائوں کا چوہدری بننے کا شوقین امریکہ اپنا سامنہ لے کر رہ گیا اور عالمی عدالت انصاف کا کاغذ ’’گیدڑوں کے سردار کا خربوزے کھانے کا اجازت نامہ‘‘ بن گیا۔ گیدڑوں کو گائوں والوں نے ’’ڈانگیں پھیر‘‘ کر سمجھایا تھا کہ ’زمینی حقائق کیا ہیں‘ بالکل ویسے ہی جیسے اس مرتبہ بھارتی گیدڑ جب خربوزے کھانے لداخ گئے تو ’’چینی ڈانگوں‘‘ نے انہیں دْم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ دنیا دم بخود رہ گئی جب چینیوں نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی بحری حدود کے تحفظ کے لئے سمندر میں جزیرے بنالئے جسے امریکہ نے ’’آٹے گوندھتے ہلتی کیوں ہے‘‘ کے مصداق اعتراض کی چاند ماری کا نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن اس کی ایک نہ چلی۔
اب امریکہ نے دو بحری بیڑے سائوتھ چین سمندر میں اتارے ہیں۔2014 کے بعد یہ پہلی دفعہ ہوا ہے۔ لڑاکا طیاروں سے لدے یہ دو بحری ’’جزیرے‘‘ ایک ایسے وقت میں اس علاقے میں آئے ہیں جب چین انہیں پانیوں میں فوجی مشقوں میں مصروف ہے۔ ’’یو۔ایس۔ایس۔ نمٹز‘‘ اور ’’یو۔ایس۔ایس۔ رونالڈ ریگن‘‘ کے نام سے یہ بحری بیڑے بحرجنوب چین میں اس اعلان کے ساتھ اترے ہیں کہ ہندوکاہل کے سمندروں میں آزادانہ نقل وحرکت جاری رہے۔
چین کی پانچ روزہ فوجی مشقیں جزیرہ پیراسل کے قریب ہورہی ہیں جس پر ویتنام اور فلپائن نے احتجاج کیا ہے۔ امریکہ جاپان سے لے کر ویتنام اور بھارت تک سب کو سائوتھ چائنا سمندر میں چین کے مخالف جمع کررہا ہے۔ ویتنام اور فلپائن کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے واشنگٹن سے بھی صدائے احتجاج بلند ہوئی ہے۔
امریکہ مسلسل سائوتھ چائنا سمندر میں اپنے بحری بیڑے اور جنگی جہاز بھجواتا آرہا ہے اور ان کا مقصد چین مخالف ممالک کو تحفظ کا احساس دلانا اور چین کو آنکھیں دکھانا ہے۔ سائوتھ چائنا سمندر میں اترنے والے امریکی بحری بیڑے 28 جون سے فلپائن کے سمندر میں تیررہے تھے۔ گزشتہ دنوں تائیوان کی جنوب مشرقی بحری نگران گاہ کے عسکری نمائندوں نے یہ الزام عائد کیاتھا کہ چینی جنگی جہاز نے امریکی فوجی ٹینکر کا تعاقب کیا ہے۔ اس طیارے میں جہاز بھرا جارہا تھا اور یہ کہ یہ جہاز دراصل چینی آبدوز کی نگرانی میں مصروف تھا۔ امریکہ اور چین کے درمیان متعدد معاہدات موجود ہیں جن کا مقصد فضائی اور سمندری حادثات سے بچنا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں مسلسل ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جس سے کسی حادثے کی راہ ہموار ہوجائے۔
’چین،بھارت‘ جنگ امریکہ کا خواب موہوم یا خواب پریشان ہے۔ سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان کے درمیان یہ پنجہ آزمائی کس حد تک جاتی ہے، یہ وقت طے کرے گا لیکن فی الوقت اس میں کلام نہیں کہ بھارتی فوج امریکی خواہشات کی قربان گاہ پر ’’بلیدان‘‘ کے لئے آمادہ وتیار ہرگزنہیں۔ ویسے بھی کہاجاتا ہے کہ کوئی ہندوآج تک خودکش بمبار نہیں بنا کیونکہ بنیادی فطرت جینا ہے مرنا نہیں۔ اس فطرت کو امریکہ کا کوئی خواب تبدیل نہیں کرسکتا۔ سائوتھ چائنا سمندر میں جاپان سے ویتنام اور دیگر تمام مخالفوں کا جلسہ منعقد کرکے اس سے تقریر ضرور کرسکتا ہے۔ اب تک کی اس کی چالبازیاں اسی سمت اشارہ کررہی ہیں۔ (ختم شد)