حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کے مؤثر اور سخت اقدامات اٹھائے بغیر مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاسکتا
وزیراعظم کی ذخیرہ اندوزوں‘ ناجائز منافع خوروں اور ملاوٹ کیخلاف زیروٹالرنس کی پالیسی وضع کرنے کی ہدایت
وزیراعظم عمران خان نے چینی کی ذخیرہ اندوزی‘ ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کیخلاف زیروٹالرنس کی پالیسی اختیار کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ گندم اور آٹے کی عوام کو بلاتعطل اور کم قیمت پر دستیابی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ گزشتہ روز آزاد پتن ہائیڈرو پراجیکٹ کی تقریب اور ارکان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے یہ ہدایت بھی کی کہ بین الصوبائی نقل و حرکت کے حوالے سے آسانی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے ذخیرہ اندوزوں کو پکڑنے اور غریبوں کو سستے آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے عام آدمی کو زائد قیمت پر آٹا خریدنے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی لانے کے اقدامات کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں چینی کی ذخیرہ اندوزی کیخلاف مزید مؤثر کارروائی کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے پنجاب میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کا بھی نوٹس لیا اور ہدایت کی کہ یا تو ذخیرہ اندوزوں کو پکڑا جائے یا عوام کو سبسڈی دی جائے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام نے 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان کو سابق حکمرانوں کے پیدا کردہ روٹی روزگار اور غربت‘ مہنگائی کے گھمبیر مسائل سے نجات اور کرپشن فری سوسائٹی کے منشور کی بنیاد پر وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا تھا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی قائد کے ریاست مدینہ کے تصور نے بھی عوام کو انسپائر کیا اور وفاق اور تین صوبوں میں پی ٹی آئی اور اسکے اتحادیوں کی حکومت کی تشکیل کے بعد اس سے اپنے روزمرہ کے مسائل سے فوری نجات کی امیدیں وابستہ کر لیں تاہم ملک کی دگرگوں اور خستہ معیشت نے عملاً حکومت کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے چنانچہ پی ٹی آئی حکومت عوام کی فلاح اور روٹی روزگار کے مسائل میں انہیں ریلیف دینے کے فوری اقدامات اٹھانے کے بجائے قومی معیشت کو سنبھالنے پر مجبور ہو گئی جس کیلئے اسے یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کے غیرمقبول فیصلے بھی کرنا پڑے اور بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا پڑا جس کی شرائط کی بنیاد پر حکومت اپنے پہلے بجٹ میں مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے پر بھی مجبور ہوئی جبکہ اس سے ملک میں مہنگائی کے نئے سونامی اٹھے تو عوام عملاً زندہ درگور ہوگئے۔ یہ صورتحال عوام کی منتخب جمہوری حکومت کی گورننس کے حوالے سے اس کیلء بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے جس کا پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار میں آتے ہی سامنا کرنا پڑا۔
بے شک وزیراعظم عمران خان نے کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کیلئے زیروٹالرنس اور بے لاگ احتساب کا راستہ اختیار کیا اور وہ کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے مسلسل عزم کا بھی اظہار کرتے رہے جس کے سابق حکمران طبقات کی گرفت کی صورت میں مؤثر نتائج بھی سامنے آئے تاہم روزافزوں مہنگائی اور اس کا باعث بننے والے ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز طبقات پر سخت ہاتھ نہ ڈالے جانے کے بعد حکومتی گورننس سوالیہ نشان بننے لگی۔ اسی دوران اقوام عالم میں پھیلتی کرونا کی وبا نے پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کئے اور قومی معیشت اپنے پائوں پر کھڑے ہوتے ہوتے مزید ڈانواں ڈول ہو گئی اور لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہوئے تو ملک میں غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کا ایک نیا طوفان امڈ آیا۔ ان حالات میں مافیا کی شکل اختیار کئے ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز طبقات نے حکومتی گورننس میں کمزوری پیدا ہونے کے تاثر سے خوب فائدہ اٹھایا اور اشیاء ضروریہ بشمول آٹا‘ گندم‘ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے من مانے نرخ مقرر کئے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیا۔
وزیراعظم عمران خان تو ان عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے اور انکے کڑے احتساب کے باربار احکام جاری کرتے رہے مگر اس مافیا کے ہاتھوں بے بس ہوئی انتظامی مشینری انکی گرفت کے کوئی مؤثر اقدامات نہ اٹھا سکی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر آٹے‘ گندم اور چینی کی ذخیرہ اندوزی کے معاملات کی انکوائری بھی ہوئی اور انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین بھی کردیا گیا‘ اسکے باوجود نہ ذخیرہ اندوزوں کے حوصلے پست ہوئے اور نہ ہی انکے بڑھائے گئے نرخ سابقہ نرخوں پر واپس آسکے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومتی ڈھیل کے تاثر نے ادویات ساز فیکٹریوں‘ ٹرانسپورٹروں اور دوسرے کاروباری طبقات کو بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا موقع فراہم کر دیا۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے عالمی مارکیٹ کے نرخوں کے تناسب سے پٹرولیم نرخوں میں دو ماہ قبل دس روپے فی لٹر تک اور گزشتہ ماہ 20 روپے فی لٹر تک کمی کی مگر پٹرولیم مافیا نے ایکا کرکے ملک میں پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کردی چنانچہ تیل کے نرخوں میں کمی سے عوام مستفید ہی نہ ہوسکے اور پھر حکومت پٹرولیم نرخوں میں25 روپے فی لٹر تک اضافہ کرنے پر مجبور ہو گئی۔ یہی وہ صورتحال ہے جو عوام میں اضطراب کی نئی لہر دوڑانے کا باعث بنی ہے جس سے حکومت مخالف جماعتوں کو اپوزیشن اتحاد کی صورت میں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر حکومت پر دبائو ڈالنے کا موقع ملا ہے اور اس وقت ’’مائنس ون‘‘ کے فارمولے پر اپوزیشن اتحاد ہی نہیں‘ حکومتی اتحاد میں بھی بحث مباحثے اور جوڑتوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس فضا میں حکومتی رٹ کے مزید کمزور ہونے کا امکان نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنے انتظامی حکم کے تحت آٹے کے 20 کلو تھیلے کے نرخ 1060 سے کم کرکے 866 روپے مقرر کر دیئے مگر ابھی تک عوام کو ان نرخوں پر آٹا دستیاب نہیں ہو سکا جس کا وزیراعظم نے گزشتہ روز نوٹس بھی لیا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ذخیرہ اندوزں کی سخت پکڑ اور عوام کو آٹا چینی کم نرخوں پر مہیا کرنے کے احکام صادر کئے گئے ہیں تو عوام ان احکام پر عملدرآمد ہوتا دیکھنا بھی چاہتے ہیں۔ اگر وزیراعظم کے زیروٹالرنس کی پالیسی اختیار کرنے کے احکام پر انکی روح کے مطابق عملدرآمد ہی نہیں ہو پائے گا تو حکومتی رٹ مستقل طور پر سوالیہ نشان بنی رہے گی اور جمہوریت مخالف عناصر کو سسٹم کیخلاف محلاتی سازشیں پروان چڑھانے کا بھی نادر موقع ملتا رہے گا۔