• news

مراد سعید کے ریمارکس پر پی پی کی رکن نے ہیڈ فون دے مارا، احتجاج، اپوزیشن ایوان سے چلی گئی

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں عزیر بلوچ سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ افشا کرنے کے معاملہ پر حکومت اور پیپلز پارٹی ارکان کے درمیان گرما گرمی ہو گئی۔ ایوان میں وفاقی وزیر مراد سعید کی جانب سے عزیر بلوچ کا اعترافی بیان پیش کر نے پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی ارکان نے مراد سعید کی تقریر پر شدید احتجاج کیا ۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن شگفتہ جمانی نے کورم کی نشاندہی کر کے مراد سعید کو اپنی تقریر نامکمل چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن نصیبہ چنا نے غصے سے ہیڈ فون مراد سعید کو دے مارا جو ان کو جا کر نہیں لگا۔ پیپلز پارٹی کے ارکان احتجاج پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ پہلے راجہ پرویز اشرف بولے، انکی بات سب نے سنی، اب مراد سعید کو بھی بولنے دیں۔ مراد سعید نے کہا کہ اللہ نے مجھے اتنا حوصلہ دیا ہے کہ یہ5گھنٹے بھی تقریر کریں میں نظروں سے نظریں ملا کر سن سکتا ہوں۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ کل اگر کوئی ہمیں لفافہ دے اور ہم وہ یہاں لے آئیں تو کیا وہ مناسب ہو گا، خدا کے لیے اس ایوان کو تماشہ اور ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے لیے نہ بنائیں، اگر آپ کسی کے لیڈر کو بے توقیر کرتے ہیں تو آپکو اپنی بھی عزت کی پروا نہیں، جے آئی ٹی ایک نوٹیفائی تحقیقاتی کمیشن ہوتا ہے، جسکی رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع ہوتی ہے، اس پر رینجر، پولیس آئی بی سب کے دستخط ہیں آپ نے کہا اس پر دستخط ہی نہیں، کروڑوں لوگوں کی ہم سے امیدیں ہیں۔ اس ہاؤس کو تو نہ خراب کریں۔ جس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت کی اس وزیر نے توہین کی وہ قابل برداشت نہیں۔ اس مسئلے کو ایک دفعہ بند کریں، آپ وہ نہیں کر رہے جو ایوان کا کام ہے۔ توجہ دلائو نوٹس کا جواب تیاری سے کریں نہ کہ اپوزیشن پر الزام تراشی کریں۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ صوبائی حکومت اور علی زیدی کی جے آئی ٹی رپورٹس میں ایک بات مشترک تھی کہ عزیر بلوچ کے سہولت کار اقتدار میں بیٹھے تھے۔ عزیر بلوچ کے 164 کے اعترافی بیان لیکر آیا ہوں، اعترافی بیان میں عزیر بلوچ نے کہا کہ 2008 سے 2013 تک مختلف ذرائع سے اسلحہ خریدا ،عزیر بلوچ نے کہا کہ میں جیل میں تھا تو مجھے پیپلزپارٹی کے قید کارکنوں کا ذمہ دار بنایا گیا، پولیس مقابلے، اغوا برائے تاوان ،بھتہ خوری میں پیپلزپارٹی کے کہنے پر طاقت کا استعمال کیا، بھتہ زرداری کی بہن فریال تالپور کو جاتا تھا، سینیٹر یوسف بلوچ کے کہنے پر500سے زائد نوکریاں جرائم پیشہ افراد میں تقسیم کیں۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ایوان اس لیے نہیں ہے کہ یہاں ہر بات بغیر سوچے سمجھے کہہ دی جائے، یہاں ایک وزیر نے کہا کہ میرے گھر میں کسی نے لفافہ دیا اور وہ لفافہ یہاں لے آئے، جے آئی ٹی نوٹیفائی ارکان پر ہو تی ہے ، رپورٹ پر رینجر، پولیس ،آئی بی سب کے دستخط ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی رپورٹ پردستخط ہی نہیں، اپنی لاعلمی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے خدا کیلئے اس ہاؤس کو تماشا نہ بنائیں۔ انہوں نے کہا مجھے یقین ہوتا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے وزیر اعظم کو بے عزت کروا رہے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے وزیر اعظم کی عزت ہو تو آپ کو دوسری جماعتوں کے لیڈروں کی بھی عزت کرنی ہو گی، آپ کی کارکردگی یہ ہے کہ آپ نے 2سال الزام تراشی میں گنوا دئیے،آپ نے اپنے دوسالوں میں ایک قدم بھی درست سمت میں نہیں اٹھایا۔ مراد سعید نے کہا کہ ہم سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی بہت سی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں، کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو اسکا جواب دینا چاہیے، ہر کسی کا یہاں حق ہے کہ وہ یہاں بات کرے، لیکن اخلاق سے گری بات کرنے کا کسی کو حق نہیں، سندھ حکومت کی جے آئی ٹی کی بحث اور علی زیدی کی بحث چل رہی ہے، ایک وزیر نے یہاں کچھ سوال پوچھے تو ہو سکتا ہے وہ سوال سخت ہوں مگر انہوں نے گالم گلوچ یا اخلاق سے گری ہوئی کوئی بات نہیں کی تھی، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی کو گالی دے۔ رپورٹ میں بھتہ خوری، قتل و غارت، ڈاکہ ،دہشت گردی کی باتیں اس جے آئی ٹی میں اٹھائی گئیں، جے آئی ٹی کے مندرجات پر غور نہیں ہو رہا، بھتہ خوری اور قتل کس کے کہنے پر کیا گیا وہ دوسری جے آئی ٹی میں ہے، عزیر بلوچ کے 164 کا اعترافی بیان لیکر آیا ہو،جس پر دونوں فریقین کا کوئی اعتراض نہیں، صرف پانچ پوائنٹ اٹھاؤ ںگا۔ میں اپوزیشن کو دو گھنٹے سن لوں گا، عزیر بلوچ نے کہا پولیس مقابلے، اغوا برائے تاوان میں پیپلزپارٹی کے کہنے پر طاقت کا استعمال کیا ،پیپلز امن کمیٹی کے نام پر مسلح دہشت گرد گروہ بنایا، جوئے کے اڈوں کی سرپرستی کی، بھتہ خوری کیلئے مختلف گروپ بنائے، بھتہ جارہا ہے زرداری کی بہن کو اور عزیر بلوچ کو، عزیر بلوچ نے کہا کہ میںنے قتل کرنے کیلئے پولیس کی3وین استعمال کیں، انسپکٹر یوسف بلوچ، ایس ایچ اور جاوید بلوچ، انسپکٹرجان خان کو میں نے استعمال کیا، لاشوں کو آگ لگائی سرپرستی پیپلزپارٹی نے کی، کیا اس اعتراف پر کسی کو اعتراض ہے؟ میں نے مظفر ٹپی کی 14 شوگرملوں پر آصف زرداری کے کہنے پر قبضے کرنے میں مدد کی ، میں نے اپنے 14لڑکے آصف زرداری کے کہنے پر بلاول ہائوس بھیجے جنہوں نے بلاول ہائوس کے گردنواح میں جگہ خالی کرانے کیلئے لوگوں کو ہراساں کیا اور 30سے 40گھر خالی کروائے۔ کورم کی نشاندہی پر اپوزیشن ارکان ایوان سے چلے گئے۔کورم کی نشاندہی پر ڈپٹی سپیکر نے گنتی کا حکم دیا مگر کورم پورا نہ نکلا جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس کورم پورا ہونے تک ملتوی کر دیا۔ بعد ازاں کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس (آج)جمعہ کی صبح 11بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی میں کے الیکٹرک کی جانب سے کراچی میں غیر اعلامیہ لوڈشیڈنگ اور نیپرا کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کے معاملے پر حکومت اور پیپلز پارٹی کے ارکان کے درمیان نوبت تلخ کلامی تک پہنچ گئی دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کی گئی اور کراچی میں کے الیکٹرک کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے رکن اسلم خان کی جانب سے خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ پر پیپلزپارٹی کی خواتین نے شدید احتجاج کیا اور سپیکر کی ڈائس کا گھیرائو کر لیا جس پر اسلم خان نے معذرت کرلی۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کی جانب سے سندھ حکومت پر تنقید پر پیپلز پارٹی ارکان نے شور شرابہ شروع کردیا، تحریک انصاف کے رکن اسلم خان اور پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تو اسلم خان نے پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان کو’’ چپ کرو شرم کرو ‘‘ کی آوازیں دیں تو خواتین ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا اوراور کہا کہ ’’ اس شخص نے ہمیں بے شرم کہا ہے، ایسا چلتا رہا تو یہاں کوئی بھی بول نہیں سکے گا‘‘۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اسلم خان کو وارننگ دی کہ خواتین ارکان کا احترام کریں ان کے ساتھ ایسی گفتگو نہ کریں ،اسلم خان کھڑے ہوکر اپنے الفاظ واپس لیں، خواتین ارکان حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے ہمارے لئے محترم ہیں، جو معذرت کرتا ہے وہ بڑا آدمی ہوتا ہے۔ اسلم خان نے کہا کہ میں نے خواتین بارے کچھ نہیں کہا عمومی بات کی پھر بھی الفاظ واپس لیتا ہوں۔ اس موقع پر اسد عمر نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر صاحب آپ نے جس طرح اسلم خان سے الفاظ واپس کروائے اسی طرح ان کے گھر پر فائرنگ کا بھی نوٹس لیں۔ حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے کے الیکٹرک کے خلاف منگل کو پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کر دیا۔ وفاقی وزیر امین الحق نے کہا کہ کراچی زندہ لاش بنتے جا رہا ہے،کراچی تڑپ تڑپ کر زندہ ہے، پیپلزپارٹی ارکان نے کہا کہ آج سمجھ آیا کہ سوال گندم جواب چنا کا مفہوم کیا ہے۔ ہم نے پوچھا کراچی کو بجلی کب ملے گی یہ کہتے ہیں پچھلی حکومتیں ذمہ دار ہیں ،یہ فقرے چار چھ مہینے چلتے ہیں مگر آپ کی حکومت کو دو سال ہوچکے ہیں،وفاقی وزراء کی طرف سے ہمیں یہ بتانا کہ کے الیکٹرک سندھ کی زمین پر ہے، کیا یہ ہماری نالج میں اضافہ کیا جا رہا ہے؟ اسد عمر اور آغا رفیع اللہ کی آپس میں تکرار ہوئی، ڈپٹی سپیکر نے آغا رفیع اللہ کو وارننگ دی کہ ایوان میں آپ اکیلے نہیں ، آپ نے پورے ایوان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن