سیاست سے ہاکی کا بیڑا غرق، کوئی عہدیدار معیار پر پورا نہیں اترتا: سمیع اللہ
لاہور (حافظ محمد عمران/ نمائندہ سپورٹس) اولمپیئن سمیع اﷲ نے کہا ہے کہ قومی کھیل کی تباہی نااہل منتظمین کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جب حکومت ہاکی فیڈریشن میں لوگوں کو اکاموڈیٹ کریگی تو تباہی کون روک سکتا ہے۔ میر ظفر اﷲ جمالی کے بعد آنیوالے تمام صدور سیاسی حمایت یافتہ تھے۔ سب نے عہدے سیاسی چالاکیوں اور پینترے بازی سے حاصل کئے۔ جب ایسے لوگ اہم عہدوں پر آتے ہیں تو وہ ہاکی کو کم اور دیگر کاموں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ چھوٹے لوگوں کو بڑے عہدے ملے‘ وہ کوئی اتنے اچھے لوگ نہیں تھے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ سے بہتری کی توقع نہیں۔ میرے بس میں ہو تو سب کو گھر بھیج دوں۔ عالمی درجہ بندی میں سترہویں پوزیشن کے بعد انہیں خود چلے جانا چاہئے۔ وزیراعظم ایک کھلاڑی ہیں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے کھیلوں کے حوالے سے ایک بھی میٹنگ نہیں کی۔ وزیراعظم عمران خان کھیلوں کی موجودہ صورتحال پر بھی میٹنگ کریں۔ ہاکی فیڈریشن کا صدر دفتر لاہور سے کراچی منتقل کیا جائے۔ چورانوے والوں کے گروپ کی وجہ سے ہاکی میں سیاست آئی ۔ میر ظفر اﷲ خان جمالی کے بعد فیڈریشن کا کوئی بھی صدر معیار پر پورا نہیں اترتا۔ گزشتہ پندرہ برس میں قومی کھیل کا معیار تیزی سے نیچے کی طرف آیا۔ ہاکی ٹھیک کرنے کیلئے نیت کا ٹھیک ہونا ضروری ہے۔ انیس سو چورانوے کے بعد ہم سوتے رہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ 2004 سے اب تک کچھ نہیں کیا۔ 2008 ء تک ہم آٹھویں نمبر پر تھے آج سترہویں نمبر پرہیں۔ 2004 ء میں منیجر بنا تو چیمپئنز ٹرافی میں برونز میڈل جیتا ۔ چورانوے والوں کے گروپ کی وجہ سے سیاست آئی ہاکی کا نام خراب ہوا‘ عہدوں اور اختیارات کا غلط استعمال ہوتا رہا اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکے ہاکی سے دور ہوتے گئے اور حکومتی اعتماد میں فرق آیا۔ سترہویں نمبر پر اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہیں۔ہاکی فیڈریشن کھیل کو منظم کرنے کیلئے کچھ نہیں کر رہی۔ ہاکی فیڈریشن کو دس پندرہ برس میں اچھی گرانٹ ملی اس کے باوجود د کھلاڑی متنفر ہوئے۔ کھلاڑی کے معاشی حالات اچھے نہ ہوں تو کوئی ہاکی کیوں کھیلے گا۔ تعلیمی اداروں کی ہاکی ایک طرف رکھ دیں۔ پی ایچ ایف ملک میں سینکڑوں ہاکی کلبوں میں تو ہاکی کروا سکتی ہے اس پر کوئی توجہ نہیں ۔ فیڈریشن میں دو سیکرٹری بھی ہو سکتے ہیں ایک سینئر ور ایک جونیئر ٹیم کی نگرانی کرے۔ ہاکی تیز ہوئی لیکن بنیاد آج بھی وہی ہے کہ گیند وصول کرنا‘ پاس دینا اور گراؤنڈ میں جگہ کیسے بنانی ہے۔ اگر ہم نیک نیتی سے کام کریں تو چار پانچ سال میں پہلی آٹھ ٹیموں میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ ملک میں ایک ہی انداز میں ہاکی کھیلی جانی چاہئے۔ آج فزیکل فٹنس ستر فیصد ہے۔ پاکستانی کھلاڑی قدرتی طور پر باصلاحیت ہیں۔ آج ہاکی آسان ہو گئی۔ ایف آئی ایچ کے نام نہاد کوالیفائیڈ کوچ دعوے کرتے ہیں۔