کچھ لوگ فضل الرحمن کے دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے: شجاعت
اسلام آباد+لاہور (وقائع نگار خصوصی+خصوصی نامہ نگار) چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ہم سب کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور واقعات سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ملیحہ لودھی کو بغاوت کے کیس میں گرفتار کرنے کا کہا اس پر میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے صحافی برادری اور انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ چودھری شجاعت حسین نے دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن جب دھرنے کیلئے اسلام آباد آئے تو اس وقت بھی کچھ لوگ دھرنے پر دھاوا بولنے کے حامی تھے لیکن عمران خان سے جا کر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا، سب ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ آپ بات کریں آپ بات کریں، اگرچہ چودھری پرویزالٰہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے باضابطہ ممبر نہیں تھے لیکن ان سے کہا گیا کہ آپ عمران خان سے بات کریں۔ چودھری پرویزالٰہی نے عمران خان سے ملاقات میں مشورہ دیا کہ اگر مار کٹائی شروع ہوگئی اور کوئی آدمی مر گیا تو الزام لینے پر کوئی تیار نہیں ہو گا۔ البتہ آپ کو ہر چیز کا جواب دینا پڑے گا جس پر فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ چودھری شجاعت حسین نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے معاملے پر ہماری پارٹی پر جو الزام لگایا گیا اس کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حالات کے مطابق میری اور چودھری پرویزالٰہی کی باہمی سوچ پر عمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا۔ عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس وقت حالات کیا ہوں گے جب پولیس اسلحہ سمیت سڑک کے ایک طرف کھڑی ہو اور دوسری طرف مدارس کے طلباء جو مولانا فضل الرحمن کے آرڈر کا انتظار کر رہے ہوں۔ اس موقع پر میں یہ ضرورکہوں گا کہ فضل الرحمن نے ان حالات میں بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا اور ہماری حکمت عملی سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مولوی صاحبان اور پولیس چند قدموں پر کھڑے تھے لیکن لڑائی نہیں ہوئی اور اس سارے واقعہ میں ایک گلاس تک نہیں ٹوٹا۔