ہفتہ‘ 19؍ذیقعد 1441 ھ‘ 11؍جولائی 2020ء
آج عالمی یوم آبادی منایا جا رہا ہے
یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ دن ہر سال آتا ہے ہم ہر سال یہ دن بطور مذاق مناتے ہیں۔ روایتی تقریبات ہوتی ہیں۔ وہی گھسی پٹی باتیں ہوتی ہیں جن پر ہم عمل نہیں کرتے۔ مقررین بھی تقریر کے بعد اس کا مسودہ ردی کی ٹوکری میں پھینک کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ بحیثیت قوم ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ انسانی آبادی میں بے تحاشہ اضافے کا اپنا عالمی ریکارڈ کبھی خراب ہونے نہیں دیں گے۔ حسب توفیق اس میں بہتری لانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ سالانہ کتنے بچے پیدا ہو رہے ہیں اس کی وجہ سے ہماری معیشت اور گھریلو میزانیئے پر کتنا بوجھ پڑا ہے۔ آنے والی نسل کے لئے تعلیم صحت اور روزگار کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر ہم ہیں بچوں کی فوج میں اضافہ کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری بھی پرورش سے لے کر تعلیم اور صحت مند نشونما تک ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں نہایت سختی سے ’’بچے ایک یا دو ذمہ اور نہ لو‘‘ کے اصول پر عمل کرنا ہو گا ورنہ یہ ننگ دھڑنگ ، فاقوں کے مارے بیمار ناخواندہ بچے ہمارے مستقبل کا کیا حشر کریں گے اس کا تو سوچ کر ہی جھرجھری آتی ہے…
٭٭٭٭٭
نیپال نے تمام بھارتی میڈیا چینلز پر پابندی لگا دی
بالآخر نیپال بھی وہی اقدامات کرنے پر مجبور ہو گیا جو پاکستان نے بھارت کی منافقانہ سیاست اور چالوں سے تنگ آ کر کئے تھے۔ بھارتی میڈیا چینلز جس طرح ثقافت اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر دوسرے ملک کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ کرتا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ اس کا منہ مکمل طور پربندکیا جائے۔ بھارت ایک مکار دشمن ہے۔ اس کا میڈیا منفی پراپیگنڈے میں ماہر ہے۔ بھارتی حکومت اسی کی آڑ لے کر جس طرح پاکستان کی جڑوں کو نقصان پہنچا رہا تھا اسی طرح نیپال کی حکومت اور نیپال کی آزادی و خودمختاری کے خلاف بھی زبان دراز کرنے لگا تھا۔ جس پر نیپالی وزیر اعظم نے تنگ آ کر ان پر حد سے زیادہ بڑھنے کا بیان جاری کرتے ہوئے پابندی لگا دی۔ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ اقبال نے اس صدی کے آغاز میں
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
کا جو خواب دیکھا تھا وہ بھی تعبیر پا رہا ہے۔ چین کے بعد نیپال بھی سینہ تان کر بھارت کے سامنے ڈٹ گیا۔ اب دیکھنا ہے ہمالیہ کے تاج کشمیر میں کب آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے جس کے انتظار میں خضر 3 صدیوں سے وولر کے کنارے بیٹھا سوچ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
سندھ میں بھرتی 18 اسسٹنٹ کمشنر محکمانہ ترقی کے امتحان میں فیل
کمال کی بات کرنے مثالی کام کرنے اور میرٹ کا قتل عام کرنے میں شاید ہی کوئی اور ہمارا ریکارڈ توڑ سکے۔ ابھی پی آئی اے کے پائلٹوں کی بھرتی پر شرمندگی ختم نہیں ہوئی تھی کہ سندھ سے اڑتی ہوئی خبر زبان میڈیا پر مچل رہی ہے کہ سندھ میں بھرتی شدہ 18 اسسٹنٹ کمشنر کی اگلے گریڈ میں ترقی کے لیے جو محکمانہ امتحان پبلک سروس کمشن نے لیا اس میں سارے کے سارے امیدوار فیل ہو گئے۔ یہ شاندار کارکردگی ان کو بھرتی کرنے والوں کے لیے ایک اعزاز ہے۔ معلوم نہیں اب یہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبان کس منہ سے اپنے دفتر جایا کریں گے۔ لوگوں کی معنیٰ خیز اور طنزیہ ہنسی کا کس طرح مقابلہ کریں گے۔ بچہ بھی اگر کسی امتحان میں فیل ہو تو والدین اس کی وہ خیر خبر لیتے ہیں کہ پورا محلہ اس واقعہ کا گواہ ہوتا تھا مگر شاید اب یہ ساری روایات بدل گئی ہیں۔ لوگ غلط کام کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔ اب تو جیل جانے والے بھی وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ یہ عجب دور ہے جس میں…
چھپتے پھرتے ہیں چیتے ہرن شکاری ہیں
جب ایسا کلجگ ہو تو کوئی کسی پر کیا الزام دھرے کسی کو کیا برا بھلا کہے جلنے کڑھنے سے بہتر ہے کہ انسان یا تو اپنی آنکھیں بند کرے یا پھر اس نظام کیخلاف آواز بلند کرے۔
٭٭٭٭٭
قومی اسمبلی کو میدان جنگ نہ بنائیں‘ سپیکر قومی اسمبلی
قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں جس طرح اب متواتر یہ ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے لگتا ہے یہ کسی سازش کا حصہ ہے کیونکہ اتفاقیہ طور پر اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں کی جا سکتی کہ ایوان کے معزز ارکان گلی محلوں کے لڑاکوں کی طرح ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے لگیں اور انہی کی بولی بولیں۔ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف دونوں طرف ایسے شعلہ بیاں مقرر موجود ہیں۔ جوہمہ وقت ایک دوسرے پر جھپٹنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ نجانے کیوں سپیکر صاحب ایسی صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں اس طرح ان کی اپنی ذات پر حرف آ رہا ہے۔ اگر باہمی تصادم کی یہی صورتحال رہی تو ایوان میں دوران اجلاس بھاری تعداد میں سکیورٹی فورسز کو کھڑا کرنا پڑے گا۔ آج کسی نے ہیڈ فون مارا کل کو کوئی کرسی دے مارے مائیک یا موبائل دے مارے جو نشانے پر جا لگے تو کیا ہو گا۔ یہ تو شکر ہے اس ہنگامہ میں نصیبہ چنا کا پھینکا گیا ہیڈ فون مراد سعید کو نہ لگا چوک گیا۔ ورنہ بات آگے تک جا سکتی ہے۔ الزام تراشی کہہ لیں حقائق نگاری کا یہ اسلوب تلخ جملوں کا یہ بیانیہ کہیں اس ایوان کی ساکھ کے ساتھ اس کے وجود کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ یہ سب کو سوچنا ہو گا ورنہ بعد میں…؎
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
کہہ کر ہاتھ ملنے کی نوبت آ سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭