• news
  • image

’’عدالتی انقلاب جاری لیکن، ردّ انقلاب؟‘‘

معزز قارئین!۔ 8 جولائی کو سپریم کورٹ نے ملک بھر میں 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے اور پانچ عدالتوں میں ججز تعینات کرنے کا حکم دِیا ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’’ زیر التوا "References"کا تین ماہ میں فیصلہ کِیا جائے ۔ دراصل "N.A.B" کا ادارہ نہیں چل رہا ، کیوں نہ نیب عدالتیں بند کردیں اور نیب قانون کو غیر آئینی قرار دے دیں ؟۔"Lakhra Coal Mining Plant"کی تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق "Suo-moto" ( از خود نوٹس ) کی سماعت کے دَوران چیف جسٹس گلزار احمد صاحب نے "N.A.B Cases" کے فیصلے نہ ہونے پر اظہار برہمی کِیا۔ صِرف لاہور میں تین سو نیب کیسز زیر التوا ہیں ۔ نیب وضاحت کرے !‘‘۔
چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ نیب کا قانون بنانے کا مقصد فوت ہو چکا ہے ۔20,20 سال سے کیس زیر التوا ہیں۔ موجودہ رفتار سے زیر التوا 1226 ریفرنس نمٹانے میں ایک صدی (Century) لگ سکتی ہے ‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے چیئرمین نیب (جسٹس (ر) جاوید اقبال) کو حکم دِیا ہے کہ ’’ وہ اپنے دستخطوں سے تجاویز جمع کرائیں ۔ اُنہوں نے اٹارنی جنرل ، پراسیکیوٹر جنرل نیب ، اور سیکرٹری قانون کو بھی طلب کرلِیا ہے ‘‘۔
’’2017ء کا عدالتی انقلاب!‘‘
معزز قارئین!۔ اُن دِنوں جسٹس میاں ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان تھے کہ ’’ جب 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ،جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت وزیراعظم میاں نواز شریف کو صادق اور امین نہ (ہونے) پر تاحیات نا اہل قرار دے دِیا تھا۔
30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ سلام!۔ ’’ عدالتی انقلاب‘‘۔ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ’’ کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کریں اور پنج تن پاکؓ کا بھی، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’ عدالتی انقلاب‘‘ کے بانِیان بن گئے ہیں ۔ یقین کِیا جانا چاہیے کہ، اب عدالتی انقلابؔ جاری رہے گا۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں ۔ عدالتی انقلاب کا "Law Roller" تیز رفتاری سے چلے گا ۔ اِنشاء اللہ !۔ ‘‘
’’عدالتی انقلاب جاری!‘‘
چیف جسٹس ، میاں ثاقب نثار کے دَور میں عدالتی انقلاب جاری رہا ، اُن کے بعد 18 جنوری 2019ء سے 20 دسمبر 2019ء تک چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے دَور میں اور اُن کے بعد 21 دسمبر 2019ء سے جناب گلزار احمد چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے عدالتی انقلاب کو جاری رکھے ہُوئے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے جاری کئے گئے "Schedule" کے مطابق چیف جسٹس ، گلزار احمد صاحب یکم فروری 2022ء تک اپنے منصب پر قائم رہیں گے ۔
پہلا "Suo-moto"
چیف جسٹس ، جسٹس گلزار احمد نے 10 اپریل (بروز جمعہ) کو پہلا "Suo-moto" (از خود نوٹس) لیتے ہُوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان سیکرٹری ہیلتھ ، چیف کمشنر اسلام آباد، صوبائی چیف سیکرٹریز اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کرتے ہُوئے اُنہیں 13 اپریل کو طلب کرتے ہُوئے پوچھا ہے کہ ’’ کرونا وائرس‘‘ سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیںاور ہسپتالوں میں کون سی سہولتیں دِی گئی ہیں؟‘‘۔
چیف جسٹس گلزار احمد صاحب کی سربراہی میں ، جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل 5 رُکنی لارجر بنچ اِس کیس کی سماعت کرے گا۔ یاد رہے کہ ’’ 7 اپریل کو چیف جسٹس گلزار احمد صاحب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اِسی لارجر بنچ نے فیصلہ کِیا تھا کہ’’ اسلام آباد اور سندھ ہائیکورٹس کی طرف سے "Under Trial"۔ قیدیوں کی "Health Emergency" رہائی کے لئے "Suo-moto" (از خود نوٹس )جاری کرنے پر حکم دِیا تھا کہ اُنہیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے !‘‘۔
’’انقلاب فرانس !‘‘
معزز قارئین!۔ انقلابِ فرانس کے دوران فرانس پر (ستمبر1792ء تا اکتوبر 1795ئ)حکومت کرنے والی۔ "Convention"۔ (انقلابی اسمبلی)۔ نے، فرانس کے بادشاہ لوئی شانز دہم(Louis XVI) پر بیرونی ملکوں کے ساتھ سازش اور فرانس سے غدّاری کرنے کا مقدمہ چلا کر، 21جنوری 1797ء کو۔"Guillotine"۔(گلا کاٹ مشین) سے اْس کا سر قلم کر ادیا گیا تھا۔ جب لوئی کو، گلّو ٹین کے پاس لایا گیا تو اْس نے وہاں کھڑے ہجوم سے مخاطب ہو کر کہا تھا۔ ’’میرے عزیز لوگو!۔ مَیں بے گناہی کی سزا پا رہا ہوں‘‘۔ 4اپریل 1979ء کو ،جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو، جنوبی ایشیاء کے لئے بی۔ بی۔ سی کے نمائندہ خصوصی، مارک ٹیلی کی رپورٹ کے مطابق، بھٹو صاحب کے، آخری الفاظ یہ تھے۔ ’’یا اللہ!۔ مَیں بے قصور ہوں!‘‘
انقلابِ فرانس کے بعد برطانیہ ، اٹلی ، آسڑیا ، روس لاطینی امریکہ اور چین میں بھی عوام کے حق میںانقلاب آیا، پھر ’’ردِ انقلاب‘‘ (Counter Revolution) کا بھی دَور دورہ ہُوا۔ جنرل محمد ایوب خان نے جب 28 اکتوبر 1958ء کو اقتدار سنبھالا تو اُن کے حامیوں نے اُسے انقلابؔ کا نام دِیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کو بھی لیکن، غریبوں کا بھلا نہیں ہُوا، تاہم 28 جولائی 2017ء کو جو ’’ عدالتی انقلاب ‘‘ شروع ہُوا تھا، وہ جاری تو ہے لیکن، ’’ ردِ انقلاب‘‘(Counter Revolution)کی قوتیں اپنا کردار تو ضرور ادا کریں گی ؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن