کراچی کے بدحال عوام پر رحم
رحمت خان وردگ‘ مرکزی صدر‘ تحریک استقلال
عوام نے تبدیلی کے خوش کن نعرے سن کر ووٹ دیا تھا بالکل اسی طرح جیسے بھٹو صاحب کے دور میں ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے پر عوام نے پیپلزپارٹی کو منتخب کیا تھا۔ حکمراں جماعت نے اس قدر بلند بانگ دعوے کئے تھے کہ عوام یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ یہ حکومت میں آنے کے 6ماہ میں ہی ملک میں انقلاب برپا کردیں گے لیکن حالت یہ ہے کہ پوری قوم ذہنی مریض بن چکی ہے اور انہیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ حکمراں جماعت کے ’’معاشی ماہرین‘‘ کی ٹیم کہاں گئی جس نے ملک کو راتوں رات بدل کر رکھ دینا تھا اور ایک ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آتا۔
عوام کو گزشتہ 2سال میں کوئی ریلیف نہیں ملا اور صرف دوائیں 1-2اور 3نمبر کی مل رہی ہیں اور ایسا موجودہ حکومت میں ہی نہیں بلکہ ماضی میں بھی ہوتا تھا لیکن عوام کو اس حکومت سے بہت زیادہ توقعات تھیں اور جتنا زیادہ کسی پر بھروسہ ہو اور جب وہ پورا نہ ہو تو سب سے زیادہ ٹھیس بھی تبھی پہنچتی ہے اور موجودہ حکمراں جماعت تو واحد آپشن کہہ کر آئی تھی کہ عوام کے پاس بہتری کے لئے ہمارے سواء کوئی آپشن نہیں ہے۔ الیکشن 2018ء میں انہیں اتنی تعداد میں نشستیں نہیں مل سکیں کہ یہ اکیلے حکومت بنالیتے یا اتحادیوں سے ملکر بھی دوتہائی اکثریت سے مناسب قانون سازی کرسکیں اسی لئے موجودہ پارلیمنٹ کے ذریعے مناسب قانون سازی ناممکن ہوچکی ہے اور اتحادی بھی آئے روز موجودہ حکومت کے حالات دیکھ کر اپنے نت نئے مطالبات منوانے کے لئے پریشر کے ذریعے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرلیتے ہیں۔ ان سنگین حالات میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی قومی ذمہ داری ہے کہ ایک ایسے فارمولے پر متفق ہوں جس میں ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کو ترجیح دی گئی ہو اور ملک ہوگا تو سیاست ہوتی رہے گی لیکن اس وقت بدترین معاشی حالات کے باعث ملک کی سالمیت اور وجود بچانا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ایسے میں اگر قومی حکومت قائم کرکے سب سے پہلے ملک کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے ایجنڈے پر کام کیا جائے تو سب سے بہتر ہوگا اور اس ہدف کے حصول کے لئے تمام باہمی سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔ عوام تو معیاری اور سستی خوراک‘ ادویات‘ علاج اور تعلیم چاہتی ہے لیکن اب تک عوام کو صرف اور صرف بے روزگاری‘ مہنگائی ‘ اشیاء کی قلت اور ملاوٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں مل سکا اور عوام کو معیاری خوراک‘ ادویات‘ علاج اور تعلیم کی فراہمی کے لئے موجودہ حالات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
عوام کو اس سے غرض نہیں کہ مائنس ون ہورہا ہے یا مائنس آل۔ عوام کو تو روزی روٹی اور دیگر بنیادی سہولیات سے غرض ہے۔ الیکشن 2018ء میں کراچی کی نمائندگی حکمراں جماعت کے حصے میں آئی اور کراچی کے لوگوں نے تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے تحریک انصاف کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا لیکن اس وقت یہ صورتحال ہے کہ کراچی کھنڈرات میں تبدیل ہوتا چلا جارہا ہے اور ہر طرف گندگی و غلاظت کے ڈھیر ہیں۔ کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ سے عوام بدحال ہوچکے ہیں اسی طرح کراچی کے اکثر علاقے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ عوام اگر کونسلر و ناظم کے پاس جائیں تو وہاں سے جواب ملتا ہے کہ سندھ حکومت نے ہمیں اختیارات نہیں دیئے اس لئے آپ اپنے مسائل کے حل کا اختیار رکھنے والوں کے پاس جائیں اور پیپلزپارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ وفاق ہمیں کام نہیں کرنے دیتا اور بلاوجہ روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور وفاق نے سندھ حکومت کو بھاری رقوم کی ادائیگی روک رکھی ہے۔
کراچی میں طویل عرصے سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے لیکن شہر کھنڈرا ت میں تبدیل ہوتا چلا جارہا ہے اور عوام بدترین لوڈشیڈنگ‘ پانی کی شدید قلت‘ گندگی و غلاظت میں رہنے پر مجبور ہیں حالانکہ کراچی ملک کی معاشی شہہ رگ ہے اور کراچی کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا مطلب پاکستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرنا ہے۔ اس لئے کراچی کے حالات میں بہتری کے لئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کراچی کے لوگوں کو بیک آواز ہوکر کراچی کو بچانے کے لئے باہر آنا ہوگا ورنہ کراچی کے مسائل میں صرف اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے ۔کراچی کا درد رکھنے والے تمام اسٹیک ہولڈرز روایتی نظام سے بغاوت کریں اور کراچی کے مسائل کے حل کیلئے میدان عمل میں آئیں۔ وفاق‘ سندھ اور کراچی کی سٹی گورنمنٹ میں موجود تمام جماعتوں سے اپیل ہے کہ خدارا کراچی کی عوام پر رحم کریں اور کراچی کے لوگوں کو گندگی‘ غلاظت‘ پانی و بجلی بحران سے نکالنے کے لئے اپنی تمام تر مثبت صلاحیتیں استعمال کریں اور عوام کو ریلیف دیں۔
کراچی میں حالیہ دنوں میں شدید گرمی اور حبس میں 18-20گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے عوام کو ذہنی مریض بنادیا ہے اور عوام کے احتجاج پر سندھ کی صوبائی حکومت میں موجود پیپلزپارٹی کی قیادت نے واضح کہا ہے کہ K-Electricکے معاملات وفاق کے پاس ہیں اور اس ادارے کو راہ راست میں لانے کے لئے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کو چاہئے کہ K-Electric کو فوری طور پر لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا پابند بنائے اور اگر K-Electric کو لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کے لئے گیس اور فرنس آئل کی ضرورت ہو تو وفاقی حکومت پہلی ترجیح میں اسے پورا کرے اور اگر K-Electric تمام بنیادی ضروریات اور وسائل کی دستیابی کے باوجود ’’کسی وجہ‘‘ سے کراچی کی عوام کو ذہنی مریض بنارہی ہے تو وفاق فوری طور پر K-Electric کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے تاکہ مستقبل میں کسی بھی صورت عوام کو پریشان نہ کیا جاسکے۔ بہرحال کراچی کی عوام کی نظریں وفاقی حکومت کی جانب ہی ہیں جو کراچی میں پانی‘ بجلی اور صفائی ستھرائی کے مسائل حل کرے کیونکہ عوام نے 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیا تھا۔ K-Electric کے معاملے میں اب دوٹوک اور فیصلہ کن اقدام کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔
کراچی کی عوام تو سوشل میڈیا کے ذریعے یہ مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ ہمیں K-Electric کے چنگل سے آزاد کرنے کے لئے کراچی میں کئی اور پاور کمپنیز کو کام کرنے کا موقع دیا جائے اور عوام جس پاور کمپنی کی کارکردگی سے مطمئن ہوں گے اس سے کنکشن لیں گے۔ اگر ایسا عملی طور پر ممکن ہو تو وفاق کوکراچی کی عوام کے اس جائز مطالبے پر فوری عمل کرنا چاہئے۔