• news
  • image

جنوبی ایشیا سے نئی سرد جنگ کا آغاز

شاطر امریکی چین اور بھارت میں جنگ بھڑکانا چاہتے ہیں جو چین اور بھارت دونوں کے مفاد میں نہیں۔ چین امریکہ سے پہلے ہی کئی شعبوں میں بہت آگے ہے اور آنے والے برسوں میں امریکہ کو مزید پیچھے چھوڑ جائے گا۔ سنکیانگ، ہانک کانگ اور تائیوان میں چین کی ٹانگ باندھ کر اس کی اڑان اور اٹھان روکنے کی امریکی سازش ناکامی سے دوچار ہے۔ چینی بھارتیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ امریکہ اورمغرب کی انگلیوں پرمت ناچو، تقسیم سے پہلے امن پسندی سے رہے لیکن یہ انگریز تھا جس نے رخنہ اندازی اور شرارت کے بیج بوئے۔ سامراج انگلستان نے یہاں تنازعات کی ایسی فصل کاشت کی جو اب خونیں برگ وبار لارہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں چین بھارت کشیدگی کے تناظر میں ہونے والے سیمینارمیں انتہائی پرمغز تجاویز پیش کی گئیں اور خطے میں ابھرتے منظر نامے کے پس منظر کے علاوہ پیش منظر کی گتھیاں سلجھائی گئیں۔ سفارتی نزاکتوں اورباریکیوں پر مدلل مکالمہ کیا گیا کہ خطے میں دوطرفہ تعلقات کو ہم داخل دفتر نہیں کرسکتے۔
امریکی صدر ٹرمپ کس وقت کیا کردیں؟ کسی کو کچھ علم نہیں ان کے اس غیر متوازن کردار نے دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ امریکی پالیسی سردست ’ٹرمپ فرسٹ‘ یا ’سب سے پہلے ٹرمپ‘ ہے۔ ایران سے ہونے والے معاہدے سے وہ فرار ہوچکے ہیں، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو۔ایچ۔او) سے الگ ہوچکے ہیں۔ عالمی رہنماوں بالخصوص چین کے بارے میں نازیبا اور زہریلی گفتگو ان کا معمول ہے۔
بھارت چین پر قبضہ کرلے گا؟ یہ خیال ہی احمقانہ ہے۔ چین نہ صرف معاشی طورپر بہت طاقتور ہے بلکہ فوجی لحاظ سے بھی کوہ ہمالیہ ہے۔ وہ اپنااسلحہ خود بناتا ہے، بھارت کی طرح دوسروں کا دست نگر نہیں۔ بھارت جنگ کرے تو اسلحہ خریدتے خریدتے اس کی تجوریاں خالی ہوجائیں گی۔ چین ہمالیہ کی بلندیوں پر بیٹھا ہے وہ اگر اوپر سے چیونٹی بھارت پر پھینکے گا تو وہ اس کے لئے ہاتھی بن جائے گی اور بھارت ہاتھی بھی چین کی طرف اچھالے گا تو وہ اوپر جاتے جاتے چیونٹی بن جائے گا۔ ہمالیہ پر بیٹھے چین کے ساتھ لڑائی بھارت کو کنگال کردے گی۔ عسکری لحاظ سے یہ موازنہ بھارت اور چین کے درمیان طاقت کے توازن کو عیاں کردیتا ہے۔ اسی لئے بھارت امریکہ کے سامنے خود کو مظلوم بنا کر پیش کررہا ہے۔ ٹرمپ نے چین اور بھارت میں ثالثی کرانے کی حماقت پر مبنی پیشکش کی۔ امریکہ مسلسل بھارت کی حوصلہ افزائی کررہا ہے کہ چین پر چڑھ دوڑے۔ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے چین کو روکنے اور اس کے ساتھ بات چیت کی پالیسی اپنائی تھی لیکن ٹرمپ نے ’رول بیک چائنا‘ پالیسی اپنائی۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو چین اور بھارت کی آبادی کے لئے بڑی تباہ کن ثابت ہوگی۔ بھارت کو سمجھایاجارہا ہے کہ پہلے بھی برطانیہ نے یہاں مسائل پیدا کئے، اب بھی امریکہ خطے میں مسائل پیدا کررہا ہے اور بھارت کو استعمال نہیں ہونا چاہئے۔
سفارتی ماہرین کو کلام نہیں کہ چین نے اول دن سے متنازعہ علاقے کے بارے میں بھارت اور پاکستان دونوں سے رابطہ کیا۔ شروع شروع میں بھارت چین بھائی بھائی کے نعرے لگتے رہے۔ پھر 1959 سے 1962 کے درمیان دونوں طرف دورے بھی ہوتے رہے لیکن آخر کار دونوں میں جنگ ہوگئی۔ آج جو لداخ میں ہوا ہے، وہ 1962 میں جوہوا، اس کا عشرعشیر بھی نہیں۔
موذی مودی چین کے ساتھ جنگ کا گنداب کیوں ڈال رہا ہے؟ منجھے سفارتکار کہتے ہیں کہ امیت شا نے آزادجموں وکشمیر اور آکسائی چن واپس لینے کا اعلان کیا جو چین کو کھلم کھلادھمکی تھی۔ ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ (ایل۔اے۔سی) پر مسئلہ بھارت نے شروع کیا۔ چین کا شروع دن سے جو موقف تھا، آج بھی وہی ہے۔
1962میں بھارت نے امریکی مدد کے لئے بڑی کوششیں کیں۔ اب وہ دنیا کو بتارہے ہیں کہ بھارت مظلوم ہے اور اسکی مدد کی جائے۔ تجزیے یہ ہیں کہ چین جنگ بڑھانا نہیں چاہتا۔ مغرب جب تک مدد نہ کرے، اس وقت تک بھارت بھی جنگ کے حق میں نہیں۔ امریکہ کھل کر چین کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکا ہے۔ روس، شمالی کوریا اور ایران پیچھے رہ گئے اور اب نمبر ون پر چین ہے۔ اقوام متحدہ بے دست وپا ہے۔ دنیا میں موجودہ نظام نہ صرف متعصبانہ ہے بلکہ مکمل طورپر مغرب کے حق میں ہے جس نے عالمی ادارے کو بے بس کردار میں بدل دیا ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں قتل عام کے ساتھ ساتھ ایل۔او۔سی پر چھیڑخانی بھی عروج پر ہے۔ بھارت جو کبھی بھی بحری قوت نہیں رہا، آج دنیا کو یہ باور کرانے کی تگ ودو میں ہے کہ وہ بحرہند کا سورما ہے۔ بھارت فلپائن، ویتنام اور دیگر ممالک کو چین کے خلاف رزم گاہ میں لانے کیلئے جال پھینک رہا ہے۔ امریکی صدر چین کا راستہ روکنے کی کوششوں میں ’’رول بیک چائنا‘‘ پالیسی تک جاپہنچے ہیں۔ امریکہ میں چین اور پاکستان کیلئے فضا سازگار نہیں رہی۔ چین اور امریکہ میں تعلقات مزید بگڑتے ہیں تو ایشیائی ممالک پر بھی دبائو آئیگا۔ چین کو نشانہ بنانے کی امریکی پالیسی کے تحت ہی بھارت کو ایف 35 لڑاکا طیاروں کی فراہمی پر کام جاری ہے۔ (جاری)

epaper

ای پیپر-دی نیشن