• news

ٹھٹھہ واٹر سپلائی ریفرنس:آصف زرداری پر فرد جرم کیلئے4اگست مقرر

اسلام آباد(صباح نیوز)جعلی اکائونٹس کے ایک اور ریفرنس میں آصف زرداری پرفردِ جرم عائد کرنے کیلئے 4اگست مقررکردی گئی ۔منگل کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ٹھٹھہ واٹرسپلائی ریفرنس میں 4 اگست کو سابق صدر آصف زرداری پر فردِجرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔عدالت نے ٹھٹھہ واٹر سپلائی ریفرنس کے تمام ملزمان کو 4 اگست کو طلب کر لیا گیا ۔ ملزمان میں ندیم بھٹو ،اشفاق لغاری ،مناہل مجید ،اعجاز خان اور دیگر شامل ہیں۔واضح رہے کہ ٹھٹھہ واٹرسپلائی ریفرنس میں نوڈیرو ہائوس کے انچارج ندیم بھٹو کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ندیم بھٹو سے تفتیش کے بعد آصف زرداری کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ریفرنس میں بتایا گیا ہے کہ ٹھٹھہ واٹرسپلائی کے غیرقانونی ٹھیکے دیئے گئے، ٹھیکوں کے نتیجے میں رقم جعلی اکائونٹس کے ذریعے ندیم بھٹوکیاکائونٹس میں آتی رہی اور ندیم بھٹو اس رقم سینوڈیرو ہائوس کا انتظام چلاتے رہے۔دریں اثنا اسلام آبادکی احتساب عدالت میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس کی سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی عدالت میں پیش کر دیا۔منگل کو احتساب عدالت اسلام آباد کے جج اعظم خان نے پارک لین ریفرنس کی سماعت کی۔کیس کی سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کیس میں نیب کے دائرہ اختیار پر دلائل دیئے۔قومی احتساب بیورو(نیب)نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس کیس میں تفتیش کا آغاز کیا ہے۔دورانِ سماعت فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی عدالت میں پیش کر دیا۔فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 4 کے مطابق آصف زرداری کے خلاف یہ کیس نہیں چلایا جا سکتا۔ بینک قرض واپسی کے لیے ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کراچی میں کیس کر چکا ہے، بینک نے قانون کے مطابق کیس کر رکھا ہے تو نیب کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔جج اعظم خان نے استفسار کیا کہ کیا بینک نے نیب انکوائری شروع ہونے سے پہلے کیس کیا تھا؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ بینک نے انکوائری شروع ہونے کے بعد کیس دائر کیا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ قانون قرض سے متعلق کیا کہتا ہے، اس کیس میں بینک شکایت کنندہ ہی نہیں ہے، نیب کارروائی کیسے کر رہا ہے؟انہوں نے کہا کہ ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں سٹیٹ بینک کے گورنر کی جانب سے مقروض کو نوٹس دیا جاتا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ کمپنی صرف ایک قرض لینے کے لیے نمودار ہوئی تھی، کمپنی رجسٹرڈ ہونے سے پہلے اس کے نام سے قرض کی درخواست چلی گئی، اس کمپنی کا اپنا دفتر بھی موجود نہیں، پارک لین کے دفتر کا ایڈریس دے رکھا ہے۔فاروق نائیک نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ آپ کو اس پر کیا پریشانی ہے؟نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے جواب دیا کہ پریشانی یہ ہے کہ بعد میں یہ پیسے فالودے والے کے اکاونٹس میں ملتے ہیں۔فاروق نائیک نے سردار مظفر عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف قانون کی بات کریں۔اس موقع پر جج نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس معاملے کو دیکھیں گے کہ کمپنی اصل تھی یا نہیں۔فاروق نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری نے 2009 میں صدرِ پاکستان کا حلف لینے سے پہلے پارک لین سے استعفی دے دیا تھا، آصف علی زرداری شیئر ہولڈر رہے، لیکن ڈائریکٹر نہیں رہے۔30 اکتوبر 2009 کو جب قرض کمپنی اکاونٹ میں آیا اس وقت آصف زرداری پارک لین کے ڈائریکٹر نہیں تھے، آصف زرداری کا استعفیٰ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے منظور کیا مگر ایس ای سی پی کو بتانے میں دیر کی۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم میں فراڈ ایسے ہی ہوتا ہے، بڑا محتاط فراڈ ہوتا ہے۔جج نے استفسار کیا کہ قرض کمپنی لے رہی تھی تو جائیداد پارک لین کی گروی کیوں رکھی جا رہی تھی؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ دونوں کمپنیوں کا جوائنٹ وینچر تھا کہ پارک لین کے پلاٹ پر عمارت بنائی جائے گی۔جج نے کہا کہ اس طرح بینیفشری تو پارک لین کمپنی ہی ہوئی ناں، پلاٹ اس کا بن رہا ہے، کمپنی کو بھی قرض لے کر عمارت بنانی تھی تو پارک لین نے خود قرض کیوں نہیں لیا؟فاروق ایچ نائیک نے سوال کیا کہ اگر دونوں کمپنیوں نے ایسا کر لیا ہے تو اس معاملے میں جرم کیا ہوا؟اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے خرابی صحت کے باعث سماعت کے التوا کی استدعا کر دی۔نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ خرابی صحت پر فاروق نائیک التوا مانگ رہے ہیں، مخالفت کرنا اچھا نہیں لگتا، آئندہ سماعت پر یہ دلائل مکمل کریں تاکہ ہم بھی ان کو جواب دے سکیں۔عدالت نے فاروق نائیک کی استدعا پر پارک لین ریفرنس کی سماعت 21جولائی تک ملتوی کر دی جبکہ انہیں آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔فاروق نائیک نے یقین دہانی کرائی کہ میں آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کر لوں گا۔

ای پیپر-دی نیشن