ایران نے بھارت کو چابہار ریل منصوبے سے نکال باہر کیا
نئی دہلی(نوائے وقت رپورٹ) ایران نے چا بہار بندرگاہ سے افغانستان کی سرحد کے نزدیک واقع شہر زاہدان تک ریلوے لائن انڈیا کی مدد کے بغیر خود تعیمر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور بھارت کو منصوبے سے باہر نکال دیا ہے۔ ایران نے یہ فیصلہ ریل کے اس منصوبے کی تعیمر کے لیے انڈیا کی جانب سے فنڈز کی عدم دستیابی اور اسے شروع کرنے میں تاخیر کے سبب کیا ہے۔ اخبار ’دی ہندو‘ نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اب اس منصوبے کو انڈیا کے تعاون کے بغیر شروع کرے گا۔ حکام کے مطابق اس کے لیے ابتدائی طور پر ایران کے قومی ترقیاتی فنڈ سے 40 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ ایران کے نقل وحمل اور شہری ترقی کے وزیر محمد اسلامی نے گذشتہ ہفتے 628 کلومیٹر لمبی چا بہار، زاہدان ریلوے لائن بچھانے کا افتتاح کیا تھا۔ مستقبل میں یہ ریلوے لائن وہاں سے افغانستان کے زارانج خطے تک جائے گی۔ یہ پورا منصوبہ مارچ 2022 تک پورا کیے جانے کی توقع ہے۔ انڈیا اور ایران کے درمیان ریلوے کا یہ معاہدہ اس وقت طے پایا تھا جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی چا بہار بندرگاہ کی تعیمر کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تہران گئے تھے۔ ایرانی ریلویز اور انڈیا کی سرکاری کمپنی انڈین ریلویز کنسٹرکشن لمیٹیڈ کے درمیان یہ معاہدہ انڈیا، افغانستان اور ایران کے درمیان ایک متبادل تجارتی راستہ تعیمر کرنے کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ انڈیا کے ریلوے انجینیئرز اور دوسرے اہلکاروں نے اس علاقے کا ماضی میں کئی بار دورہ کیا ہے جہاں سے اس منصوبے کا آغاز ہونا ہے۔ ایرانی حکام نے بھی اسے شروع کرنے کے لیے کئی بار تیاریاں کیں اور انڈین کمپنی پر کام شروع کرنے کے لیے زور ڈالا تاہم انڈیا نے امریکہ کی جانب سے کارروائی کیے جانے کے خدشے کے سبب اسے شروع نہیں کیا۔ اس معاملے میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکہ نے چا بہار اور زاہدان ریلوے لائن کو پابندیوں سے مستثنی رکھا تھا۔ امریکی پابندیوں کے سبب ایران کے لیے اس منصوبے کے لیے ساز و سامان اور تعمیراتی پارٹنرز حاصل کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس منصوبے سے الگ کیا جانا انڈیا کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ ایران نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب ایران چین کے ساتھ 25 برس کے لیے سٹرٹیجک پارٹنرشپ کا ایک معاہدہ کرنے جا رہا ہے۔ روزنامہ ’دی ہندو‘ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے اس وسیع منصوبے کا جو خاکہ سامنے آیا ہے اس کے تحت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، مینیوفیکچرنگ اور توانائی کے شعبے اور ٹرانسپورٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں سرمایہ کاری سے لے کر بندرگاہوں، ریفائنریوں اور دیگر اہم تنصیبات کی تعیمرنو تک میں تعاون و اشتراک کیا جائے گا۔ اس مدت میں ایران چین کو رعایتی دام پر خام تیل کی سپلائی جاری رکھے گا۔ خبر ہے کہ چا بہار بندرگاہ بھی، جسے انڈیا تعیر کر رہا ہے، چین کو لیز پر دی جا سکتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران نے گذشتہ برس پاکستان میں زیر تعیمر چین کے زیر انتظام گوادر بندرگاہ اور چا بہار کے درمیان معاہدے کی تجویز بھی سامنے رکھی تھی۔ انڈیا اس خطے میں چین کے بڑھتی ہوئی موجودگی اور اثر ورسوخ کو بہت گہری نظر سے دیکھ رہا ہے۔
بیجنگ (شِنہوا) چین نے ایرانی جوہری مسئلے کے حوالے سے مشترکہ جامع منصوبہ برائے عمل (جے سی پی او اے) کی بھر پور حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں ترجمان ہوا چھون اینگ نے کہا کہ پانچ سال قبل پی 5 + 1 (چین ، روس ، فرانس ، جرمنی ، برطانیہ اور امریکہ)، یورپی یونین اور ایران نے ویانا میں جے سی پی او اے معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ کثیرالجہتی سفارت کاری کے نتیجے میں ہونے والے اس اتفاق رائے کی پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 نے توثیق کی۔ بدقسمتی سے امریکہ نے حالیہ برسوں میں یکطرفہ اقدامات اٹھائے،اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کی اور معاہدوں اور تنظیموں سے دستبردار ہوا۔ ہوا نے مزید کہا کہ امریکہ نے مئی 2018 میں جے سی پی او اے سے دستبرداری اختیار کی اور دیگر فریقین کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ترجمان نے کہا کہ قراردار 2231 کی اس طرح کھلی خلاف ورزی کے باعث ایرانی جوہری مسئلے پر کشیدگی برقرارہے۔ فی الحال امریکہ ایران کے خلاف سلامتی کونسل کے اسلحے کی پابندی میں توسیع اور پابندیوں کے طریقہ کار کو تیزی سے متحرک کرنے کی دھمکی دے کر جے سی پی او اے کو مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔ ترجمان کے مطابق چین کا موقف ہے کہ جے سی پی او اے کا تحفظ اور اس پر عمل درآمد ایرانی جوہری مسئلے کے حل کا صحیح طریقہ ہے۔ ایران کی جانب سے معاہدے کی شرائط سے پیچھے ہٹنا امریکہ کے سخت دبا کا نتیجہ ہے۔ چینی ترجمان نے کہا کہ جے سی پی او اے کے فریق مشترکہ کمیشن کے فریم ورک کے تحت بات چیت اور مشاورت کو مضبوط بنائیں، تنازعہ کے حل کے لئے مرحلہ وار اور باہمی رویہ اختیار کریں۔