نہ بھٹو، نہ زرداری نہ شریف برادران!!!!
خبر ہے کہ قومی احتساب بیورو نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے خلاف ایک نئے کیس میں تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ میاں نوازشریف کے خلاف تحقیقات رائے ونڈ روڈ کی تعمیر سے متعلق ہیں۔ شہباز شریف کے خلاف ایل ڈی اے میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا کیس بند کرنے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔ ایک کیس بند ہو رہا ہے تو ایک کیس کھلنے جا رہا ہے۔ کیسوں کا یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ کرپشن کی ہزار داستانوں کو مکمل ہوتے دہائیاں بیت جائیں گی۔ کرپشن کیسز کی بھرمار میں یہ ممکن نہیں ہے کہ میاں برادران یا ان کی اگلی نسلیں جو سوچ رہی ہیں وہ ممکن ہو سکے۔
دیواروں پر لکھا نظر آتا ہے کہ اب نہ بھٹو خاندان حکومت میں آئے گا نہ ہی زرداری خاندان کو موقع ملنے والا ہے اور نہ ہی میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کا کوئی سیاسی مستقبل ہے۔ ان خاندانوں کی سیاسی زندگی اختتام کو پہنچ چکی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ان اقتدار کی کشتی ڈوب چکی ہے اور خود کو تاحیات حکمران سمجھنے والے ان کرداروں کا سیاسی مستقبل اس ڈوبتی کشتی میں اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ کیونکہ جو ظلم ان سیاسی خاندانوں نے اس ملک کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ انہیں دوبارہ موقع مل سکے۔ آج ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کی بنیاد ان کے منفی طرز حکومت، بد انتظامی، میرٹ کے قتل عام اور کرپشن کی ہزار داستانوں کا نتیجہ ہے۔ اداروں کی تباہی ہو یا قومی سلامتی کے معاملات یا پھر قرضوں کا جال یہ سب کیا دھرا ان سیاسی خاندانوں کا ہے جس کی سزا قوم آج بھگت رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہونے والے تباہی کے اس سیاسی سفر کو دو ہزار اٹھارہ میں بریک لگی ہے اور ان شائ اللہ اب مالی، اخلاقی اور ہر طرح کی کرپشن کے استاد کبھی دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں نظر نہیں آئیں گے۔
یہ پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں ضرور خیال آئے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی مایوس کارکردگی کے باوجود ایسا کیوں کہا جا رہا ہے یہ ایک الگ بحث ہے کہ پی ٹی آئی کامیاب ہے یا ناکام لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ملک ایک مرتبہ پھر ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے جو اس کی تباہی کا سبب بنے ہیں۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مدت پوری کرے گی اور اس کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی تیس پینتیس سال میں لوگوں کی سیاسی تربیت ہے کہ ہر کسی کو کرپشن کا راستہ دکھایا گیا ہے بلکہ اسی ایک راستے کو کامیابی کا راستہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ برسوں ایک ہی طرح کے ماحول میں کام کرنے کی وجہ سے سیاست دانوں کی عادتیں نہیں بدل رہیں۔ ان خاندانوں نے پاکستان کے پلے کچھ نہیں چھوڑا، ملک کی معیشت کو کمزور بنیادوں پر آگے بڑھانا تھا۔ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ اس کے بعد بھی یہ سیاسی شعبدہ باز کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ انہوں نے چن چن کر ایسے افراد کو مواقع دیے جنہوں نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان سیاسی خاندانوں کا اب کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ آج کا پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے، بیروزگاری ہے، عدم مساوات ہے، انصاف کا قتل عام ہے، صحت کی سہولیات کا بیڑہ غرق ہے یہ سب کچھ انہی کا کیا دھرا ہے۔ خود علاج کروانے باہر بھاگ جاتے ہیں اور قوم کے لیے کچھ نہیں کر سکے، ان کے ذاتی کاروبار یا جن افراد کو یہ آگے لاتے رہے ان سب کے ذاتی کاروبار تو ترقی کرتے رہے لیکن ملک کے ادارے تباہ ہوتے رہے۔ یہ ملکی اداروں کو تباہ کرتے ہوئے اپنی جاگیریں بناتے رہے۔
کرپشن میں جکڑے پاکستان کے حوالے سے عنایت بخاری کی ای میل بھی آج شامل کرتے ہیں۔ عنایت بخاری لکھتے ہیں کہ دوبارہ زحمت دینے کی پیشگی معذرت قبول کیجئے۔ لیکن موضوعات کے چناؤ میں ہمارے درمیان جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ مجھے مجبور کرتی رہیگی کہ میں اپنے خیالات آپ کے ساتھ بانٹتا رہوں۔ آج کے سائرن میں کرپشن کے حوالہ سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے یہ ہر اس پاکستانی کی آواز ہے جو پاکستان کے مسائل کو پاکستانی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت مرحوم قاضی حسین احمد کے الفاظ میں امپورٹڈ حکمران ملک پر مسلط ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ عوام کی ضرورت کیا ہے؟ اور اسے کیسے پورا کرنا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انہیں ان مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔
چند دن پہلے میں نے پاکستان کے حوالہ سے اپنے فیس بک صفحہ "پاک سوچ" پر ایک واقعہ شئیر کیا تھا اور اس پر تبصرہ بھی لکھا تھا۔ آپکی توجہ کیلئے لنک دے رہا ہوں۔ براہ کرم اس کرپشن کی طرف بھی صاحبان اقتدار کی توجہ مبذول کرائیے۔ شائد کہ "عوام" سکھ کا سانس لینے کا موقع پا لے۔ قارئین پاک سوچ پر یہ واقعہ پڑھ سکتے ہیں۔ ایسے واقعات ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں لیکن ہم اتنے بیرحم اور سخت دل ہو چکے ہیں کہ کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔ کرپشن کے یہ بدترین تحفے ان سیاسی خاندانوں اور جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں کے عطاء کردہ ہیں۔
کراچی انتظامیہ اور ڈیری اینڈ کیٹل فارمر والے دودھ کی قیمتوں پر آمنے سامنے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر دونوں کے درمیان ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے۔ انتظامیہ نوے روپے فی کلو دودھ فروخت کروانا چاہتی ہے جبکہ گوالے ڈٹ گئے ہیں کہ ایک سو بیس روپے سے کم پر دودھ نہیں بیچیں گے۔ گوالوں کی طرف سے دودھ کی قیمت میں اضافیکا مطالبہ جائز ہے کیونکہ ایک طرف دو بڑی کمپنیوں کو ملک میں ایک لیٹر دودھ ایک سو پچپن روپے فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے جب ملک بھر میں ہر بڑے چھوٹے سٹور پر دودھ کے ڈبے ایک سو پچپن روپے کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں تو کراچی کے گوالوں کو نوے روپے فی لیٹر پر فروخت کرنے کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ایک ہی ملک میں ایک ہی چیز کی دو مختلف قیمتیں کیسے مقرر کی جا سکتی ہیں یہ عدم مساوات ہے۔ اس مسئلے پر حکومت کو سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ بالخصوص اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کا تعین کرتے ہوئے محتاط رویہ بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے طریقہ کار پر بھی نظر ثانی ہونی چاہیے۔ اگر گوالوں نے قیمتوں میں اضافہ کیا ہے تو اس کی دوسری بڑی وجہ ان تمام چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے جو اس کاروبار سے منسلک افراد خریدتے ہیں۔ بجلی، گیس، پانی، پیٹرول، جانوروں کا چارہ، کھل بنولہ اس کے ساتھ ساتھ ملازمین کا خرچہ بھی بڑھا ہے تو پھر گوالے کیسے نوے روپے میں دودھ فروخت کر سکتے ہیں۔ اس لیے جب کسی بھی چیز کی تیاری پر زیادہ اخراجات آئیں گے تو مارکیٹ پہنچنے تک اس کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہے۔ کراچی انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاملات کو سلجھانے کے لیے گوالوں کے ساتھ مذاکرات کرے اور دودھ کے نئے نرخوں کے تعین کے لیے درمیانی راستہ اختیار کرے کیونکہ کاروبار چلنا چاہیے اگر گوالے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی طرح دودھ مارکیٹ میں لانا کم کر دیں گے تو کراچی کے عوام کو بجلی کے کمی کے ساتھ ساتھ دودھ کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ صورت حال انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس لیے وقت ضائع کرنے کے بجائے مسئلے کو حل کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اگر گوالوں پر قانون لاگو ہوتا ہے اقر انتظامیہ حرکت میں آتی ہے تو جو ایک سو پچپن روپے فی کلو بیچ رہے ہیں کیا ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ قیمتوں کا تعین ایسے نہیں ہوتا کہ جو کمزور ہیں ان پر ڈنڈا چلانا شروع کر دیا جائے اور جو ڈنڈے کی پہنچ سے دور ہیں وہ دندناتے پھرے اور من مانیاں کرتے پھریں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔
کے الیکٹرک کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کے وعدے وفا نہیں ہو سکے۔ کراچی والوں کا مسئلہ بجلی کی بل تعطل فراہمی ہے سب سے پہلے یہ مسئلہ حل ہونا ضروری تھا اب اس میں اوور بلنگ کو گھسا لیا ہے وفاقی وزراء اور حکومت اگر مسئلہ حل نہیں کر سکتی تو عوام سے وعدے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کم از کم کراچی کے شہریوں کو بجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی تو بنایا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر بیانات سے پنکھے چل اور گھر روشن ہو سکتے ہیں، ائیر کنڈیشنر چل سکتے ہیں تو زبانیں چلتی رہیں دیکھتے ہیں اس مشق سے کراچی والوں کی زندگی میں سکون آتا ہے یا نہیں۔
تکلیف دہ خبر ہے کہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں دہشت گردوں کی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر فائرنگ سے تین جوان شہید جبکہ آٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ دھرتی ماں کی حفاظت کے لیے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ان جوانوں کو سلام ہے۔ حکومت کو ایک مرتبہ پھر یاد دلاتے ہیں کہ بلوچستان پر توجہ دے۔ بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک طرف دشمن ہمارے جوانوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کینسر میں مبتلا پندرہ سالہ علی رضا فوجی وردی پہن کر دشمن کو ملک پر جان نچھاور کرنے کا پیغام بھی دے رہا ہے۔ کینسر میں مبتلا اس بچے نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا ویڈیو لنک پر ہونے والی اس ملاقات میں افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے علی رضا کے جذبے کو سراہا۔ یہی وہ جذبہ ہے جو دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اور ہم سب کو وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان قربان کرنے کا جذبہ عطاء فرمائے۔
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے اس مرتبہ گندم کی قیمت نہیں بڑھنے دیں گے۔ محترم وزیراعظم سے گذارش ہے کہ ایسے معاملات پر ایکشن لینے کے بعد ڈٹ جایا کریں اور اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹنے کے بجائے عام آدمی کے ساتھ کھڑے رہا کریں۔ عوام کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے انہیں ذاتی حیثیت میں کام کرنا پڑے گا۔ اپنی کابینہ پر کچھ نہ چھوڑیں ورنہ سارا بوجھ عام آدمی پر آئے گا۔ گندم کی پیداوار، لاگت، ذخائر، سبسڈی اور تقسیم جیسے بنیادی مسائل کو سمجھنا نہایت اہم ہے۔ اکثر اوقات وزیراعظم کو پیش کی جانے والی رپورٹس میں حقائق کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس وجہ سے عام آدمی پر بوجھ پڑتا ہے۔