بیٹی کو سکول جانے سے منع کیا تو خاتون ٹیچر نے جنس تبدیل کرا کر شادی کرلی: والدین
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں دو لڑکیوں کی آپس میں ’شادی‘ کا انکشاف ہوا ہے اور عدالت نے دونوں لڑکیوں کو 15 جولائی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کا سنگل بینچ اس درخواست کی سماعت کرے گا۔ راولپنڈی کے رہائشی امجد شاہ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کی 20 سالہ بیٹی جو کہ ایک مقامی پرائیویٹ سکول میں پڑھتی تھی، وہاں پر اس کے تعلقات ایک اور خاتون ٹیچر کے ساتھ ہوگئے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جس لڑکی کے ساتھ اس کی بیٹی کے تعلقات قائم ہوئے تھے وہ بھی اس کے گھر کے پاس ہی رہتی تھی اور اْس لڑکی نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس نجی سکول میں بطور استاد نوکری کی تھی۔ درخواست گزار کے مطابق جب اسے معلوم ہوا کہ ان دونوں کے درمیان مخیر شرعی ہیں تو اْنھوں نے اپنی بیٹی کو سکول جانے سے روک دیا ۔درخواست گزار کے مطابق دوسری لڑکی نے جعلسازی کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ میں خود کو لڑکا ظاہر کیا اور کچھ دنوں کے بعد دونوں گھر سے بھاگ گئے اور کورٹ میرج کر لی۔ درخواست گزار کے مطابق راولپنڈی کی مقامی عدالت نے بھی حقائق کو دیکھے بغیر ان کو میرج سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مذہب اسلام میں ہم جنسوں کے درمیان شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح کے تعلقات نہ صرف مذہب بلکہ پاکستانی معاشرتی روایات کے بھی خلاف ہے۔ اس پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت لاہور ایڈشنل سیشن جج کی عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے میرج سرٹیفکیٹ کو منسوخ کرے بلکہ اس کی بیٹی کو ورغلانے اور شناختی کارڈ میں خود کو لڑکا ظاہر کرنے پر جلعسازی کا ارتکاب کرنے والی لڑکی کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرے۔ درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ان کے موکل کی بیٹی سے جس لڑکی نے ’شادی‘ کی ہے، اس سے جب رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ اس نے اپنی جنس تبدیل کروائی ہے جبکہ درخواست گزار کے بقول پاکستان میں جنس کی تبدیلی ناممکن بھی ہے اور غیر شرعی بھی ہے۔ عدالت نے مقامی پولیس کو پابند کیا ہے کہ وہ دونوں لڑکیوں کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کریں۔