جمعرات ‘ 24؍ذیقعد 1441 ھ‘ 16؍جولائی 2020ء
پاک فوج میرٹ پر یقین رکھتی ہے، صنف مسئلہ نہیں: لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر
یہ مقام شکر ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ تو موجود ہے جہاں میرٹ پر یقین ہی نہیں رکھا جاتابلکہ اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں اُوپر سے لیکر نیچے تک نظم و ضبط بھی موجود ہے اور ترقی کیلئے اِدھر اُدھر سے غیرقانونی ذرائع تلاش نہیں کرنا پڑتے۔ جبھی تو لوگوں کو اپنی فوج سے اتنی محبت ہے کہ ہر میدان میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ فوج ہرمیدان میں خواہ میدان جنگ ہو یا قدرتی آفات، سیلاب ہو یا امن و امان ہر میدان میں عوام کی توقعات پر پورا اترتی ہے۔ آرمی کی پہلی خاتون سرجن لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر نے بھی جو اس عہدے پر فائز پہلی خاتون ہیں، بجا طور پر کہا ہے کہ فوج میرٹ پر یقین رکھتی ہے، صرف یہی نہیں فوج میں کسی قسم کا کوئی صنفی امتیاز برتا نہیں جاتا۔ جو خواتین فوج میں شامل ہو کر ملک و قوم کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا عزم کرتی ہیں، وہ بھی اعلیٰ مدارج حاصل کرسکتی ہیں۔ نگار جوہر اسکی زندہ مثال ہے۔ بس شرط یہی ہے کہ لوگ اپنے کام میں ڈٹ جائیں، محنت کریں تاکہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوں۔وہی لوگ کامیابی کی منازل طے کرتے ہیںجو لگن سے اپنے کام میں جتے رہتے ہیں، صرف محنت کی عادت اور عزم مسلسل کی ضرورت ہے، انہی کی بدولت ہر شخص کامیاب زندگی بسر کرسکتا ہے۔
٭..........٭..........٭
آصف علی زرداری کی کرونا اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے عدالت میں پیش ہونے سے معذرت
بڑے مزے کی بات تو یہ ہے کہ کرپشن یا بے حساب دولت کماتے وقت تو کسی شخص کو اگر بڑی سے بڑی بیماری بھی لاحق ہو تو وہ ظاہر نہیں کی جاتی، ہر وقت ہشاش بشاش دکھایا جاتا ہے۔ کاروبار سلطنت ہو یا کاروبار حیات ہر جگہ وہ مستعد نظر آتا ہے مگر جیسے ہی وہ قسمت کے اُلٹ پھیر میں آجائے، اچانک اسکی حالت بدل جاتی ہے۔ ساری صحت و شوخیاں قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔ ہنستے مسکراتے چہرے پر ایک یاسیت اور غم چھا جاتا ہے۔ مرد آہن بھی موم بتی کی طرح پگھلتا محسوس ہوتا ہے۔ اسکے باوجود یہ بات کہنے میں کوئی آر نہیں کہ پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف زرداری کسی حد تک واقعی بقول مرحوم قبلہ مجید نظامی ’’مردحر‘‘ نظر آتے ہیں، مکمل نہ سہی ففٹی پرسنٹ ہی سہی، ویسے بھی انہیں ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا جاچکا ہے۔ اب وہ بیمار ہیں اور بوڑھے بھی ہوچکے ہیں، قانون کے لپیٹے میں آئے ہوئے ہیں مگر کہیں بھاگے نہیں، ملک میں ہی ہیں۔ یہ ایک واضح فرق ہے۔ عوامی سیاست اور ڈرائنگ روم والی سیاست میں۔ اسکا ایوارڈ بہرحال پیپلزپارٹی کی قیادت کو جاتا ہے ورنہ اکثر مڈل مین ’’لٹو تے پھٹو‘‘ قسم کے پیپلزپارٹی کے رہنما زرداری جی کو مشکل میں چھوڑ کر اِدھر اُدھر ہوگئے یا بیرون ملک چلے گئے۔ اب زرداری صاحب نے عدالت کے بلاوے پر کہا ہے کہ وہ کرونا کی وجہ سے اور خود کو لاحق دیگر بیماریوں کے سبب عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتے، اس لئے انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ دیکھتے ہیں کہ اب عدالت کی طرف سے کیا فیصلہ ہوتا ہے جبکہ وہ کافی عرصے سے ویسے بھی استثنیٰ پر ہی ہیں۔
بابری مسجد، رام مندر پر نیپالی وزیراعظم کے بیان سے آر ایس ایس کا بیانیہ خطرے میں پڑگیا
اب لاکھ ہندو انتہاپسند، تاریخ دان اور مذہبی جماعتیں تاریخ کو غلط کہیں یا من مرضی کی کہانیاں گھڑیں، حقیقت تو یہ ہے کہ نیپالی وزیراعظم کے اس بیان نے صورتحال بدل دی ہے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شری رام بھارت میں نہیں نیپال میں پیدا ہوئے تھے اور انکی جنم بھومی ایودھیا بھارت میں نہیں نیپال کے ایودھیا نامی علاقے میں ہوئی ہے۔ اس سے یہ بات اور بھی واضح ہوگئی ہے کہ جہاں بابری مسجد بنائی گئی وہاں رام کی جنم بھومی کا معاملہ متنازعہ ہے، اس لئے ایک متنازعہ معاملے پر قائم شدہ مسجد کو شک کی بنیاد پر ڈھانا غلط ہے۔ خود ہندوستان میں متعدد مورخ، مذہبی رہنما اور جماعتیں بھی بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی سے متفق نہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہاں سیتا میا کی رسوئی یعنی باورچی خانہ تھا۔ شری رام چندر کا جنم دن 5000سال پہلے بتایا جاتا ہے۔ اس دوران کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی کسی بھی ہندو مہاراجہ کے دور میں یہاں رام مندر نہیں تھا اگر ہوتاتو اس کی شہرت بھی ہوتی۔ ماہرین آثار قدیمہ کی کھدائی سے اس جگہ جو قدیم مندر کے آثار ملے ہیں، وہ بھی بمشکل ہزار سال پرانے ہیں۔ بابری مسجد اس جگہ سے فاصلے پر بنائی گئی تھی۔ اب آر ایس ایس والے، بجرنگ دل والے اور شیوسینا والے نیپالی وزیراعظم کے پتلے جلائیں یا اپنی تاریخ کا ماتم کریں، اس سے کیا ہوگا۔ حقیقت بدل نہیں سکتی۔ بابری مسجد کی شہادت ایک ظلم تھا، جس کی وجہ سے سینکڑوں مسلمانوں کی جانیں گئیں۔ آج بھی بھارتی مسلمان اس مسجد کی بحالی کیلئے کوشاں ہیں۔
٭..........٭..........٭
پاکستان میں سویڈش خاتون سفیر نے رکشہ لائسنس حاصل کرلیا
حضرت داغ دہلوی اردو کے مسلم الثبوت استاد شعراء میں شامل ہیں۔ جناب داغ شاعری میں حضرت غالب کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کے بارے میں ایک شعر کہا ہے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ نہایت ادب کیساتھ ان کے شعر کی پیروڈی کرکے ہم پاکستانی رکشہ کی تعریف کر رہے ہیں۔
رکشہ ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم انہی رکشوں ہی کی ہے
اور یہ حقیقت بھی ہے جس طرح پاکستانی ٹرک آرٹ دنیا بھر میں مقبول ہے، اسی طرح ایک وقت تھا پاکستان میں اٹلی کے ویسپا رکشے کی دھوم تھی۔ ڈرائیور اسے کسی دلہن کی طرح بناسنوار اور سجا کر رکھتے تھے۔ اس پر خوبصورت پینٹنگ کی جاتی، جس طرح ٹرکوں اور بسوں پر ہوتی ہے۔ اب سی این جی رکشوں کی وجہ سے یہ کام ختم ہوگیا اور بدنما بھدے رکشے ذرا بھر آنکھوں کو نہیں بھاتے۔ بہرحال بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ اب سویڈش سفیر صاحبہ نے لاہور میں عوامی زندگی میں رکشوں کی اہمیت دیکھتے ہوئے اسکو چلانے میں مہارت حاصل کی اور پنجاب ٹریفک پولیس سے ڈرائیونگ لائسنس بھی حاصل کرلیا۔ یہ تو انکے شوق کی بات ہے ورنہ بھلا انہوں نے پاکستان میں کونسا رکشہ چلانا ہے۔ ہمارے کئی دل جلے تو ’’جس نے ماں کو ستایا‘ اس نے رکشہ ہی چلایا‘‘ کی گرہ لگاتے رہتے ہیں۔ سویڈن میں رکشہ نام کی کوئی سواری نہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان سے واپسی پر ایک خوبصورت رکشہ جو دلہن کی طرح سجا ہوا ہو، اپنے ساتھ سویڈن لے جا کر پاکستانی ثقافت اور آرٹ کی نمائش کریں۔ لوگ انہیں اس رنگ برنگی سواری میں دیکھ کر خوش ہوں گے۔
٭..........٭..........٭