• news
  • image

وزیراعظم کی دیانت کی گواہی

ایک طرف باپ اور دادا اعلی تعلیم یافتہ اور مادر ملت کے حامی۔ اکرام اللہ نیازی نے آمر ایوب خان سے اسی سیا سی تصادم پر سرکاری ملازمت سے استعفی دیا اور ووسری طرف باپ اور دادا کی ڈگریاں نامعلوم۔
میں یہ نہیں کہوں گا کہ عدلیہ نے وزیر اعظم کو صادق اور امین ڈیکلیئر کیا۔ یہ فیصلہ بھی ایک بین دلیل ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔
میں ذاتی معلومات کی بنا پر کہتا ہوںکہ عمران خان ایک دیانت دار اور ایماندار شخص ہیں۔ میںنے ان کو شوکت خانم ہسپتال کے لئے چندہ اکٹھے کرتے دیکھا۔ مجھے بھی انہوںنے ہاتھ سے لکھ کر دیا کہ میں اسداللہ غالب کا ممنون ہوں کہ انہوںنے شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں ملت ڈا ٹ کام کے توسط سے بہت اہم کردارادا کیا۔ مگرمیںنے قرض اتارو ملک سنوارو کے لئے بھی فنڈ ریزنگ کاا ٓنکھوں سے مشاہدہ کیا،نواز شریف کے جو وزرا چندہ لینے بیرون ملک گئے، انہوںنے ڈالر اور پائونڈ ذاتی عیاشیوں پر اڑا دیئے ، اس کی گواہی اسٹیٹ بنک دیتا ہے جس کے اکائونٹ میںگنتی کا فنڈ ڈپازٹ کروایا گیا مگر عمران خان کو جو فنڈ ملا، اس کی پائی پائی ہسپتال کی تعمیر اورا س کی مشینری اور آلات کی خرید پر خرچ کی گئی۔ اس نے چھوٹے بچوں سے پیسہ پیسہ اکٹھا کیاا وراسے بھی ہسپتال پر خرچ کیا۔ ورلڈ کپ سے جو رقم ملی وہ بھی ہسپتال کے لئے مختص کر دی، عمران خان کو جو کوئی پلاٹ الاٹ کیا گیا۔ اسے بھی فروخت کر کے اس نے ہسپتال کے اکائونٹ میں ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہسپتال مکمل ہواا ور ہر لحاظ سے فنکشنل ہو گیا تو انہوںنے مجھے بلایاا ور خود ہسپتال کاایک ایک شعبہ مجھے گھوم کر دکھایا۔
جس روز کابینہ نے یہ فیصلہ کیا کہ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا معاہدہ اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب کے ساتھ کیا جائے گا تو میںنے ڈاکڑ امجد ثاقب کو ایک تو مبارک باد دی اور دو سرے یہ کہا کہ آپ کو یہ پراجیکٹ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم کو پتہ ہے کہ ا س میںکوئی خورد برد نہیں ہو گی اورا س سے مجھے مزید یقین ہو گیا ہے کہ ایک دیانت داراو ر امانت دار شخص نے دوسرے امانتدار اور اور دیانت دار شخص کا صرف اس لئے انتخاب کیا ہے کہ کوئی عوامی خزانے پر ڈاکہ نہ ڈال سکے ورنہ وزیر اعظم نے مال بنانا ہوتا تو مارکیٹ میں سینکڑوں ایسے بلڈر موجود ہیں جو پچاس فی صدکمیشن نقد ادا کر دیتے مگر عمران خان کے خمیر میں حرام کھانا لکھا ہی نہیں۔ وہ کرپشن کے خلاف ہے، اس کا سارا ایجنڈہ کرپشن کے خلاف ترتیب دیا گیا ہے۔
میں یہ باتیں آج اس لئے لکھنے پر مجبور ہوا ہوں کہ بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کو کرپٹ کہا ہے۔ اور ان کے والد پر بھی الزام تراشی کی ہے۔بلاول کو جوا ب دینے کی قطعی ضرورت نہ ہوتی اگر اس کے نام کے ساتھ پی پی پی کی سربراہی کا دم چھلہ نہ لگا ہوتا ورنہ بلاول کی کیااوقات کہ وہ بڑے بول منہ سے نکالے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن تو اس کی پیدائش کو ہوئے ہیں ، وہ کہاں سے سیاست دان ا ور معتبر بن گیا، اسے تو وزیر اطلاعات شبلی فراز نے صحیح جواب دیا ہے کہ بلاول اگر سیاست دان ہونے کادعوی کرتا ہے تو میں بھی شاعر ہونے کا دعوی کر سکتا ہوں ، اس لئے کہ ان کا باپ احمد فراز اردو کے بڑے شاعروں میں بلند تر مقام پر فائز ہے۔
ہمارے ملک میں ایک ریت پڑ گئی ہے کہ ہر سیاسی لیڈر کا بچہ سیاست دان بن بیٹھا ہے،نواز شریف کے دو بیٹے توایسادعوی نہیں کر سکے مگر ان کی بیٹی نے کہہ دیا کہ روک سکو تو روک لو۔ وہ سیاست دان ہوتی تو اتنا بڑا بول نہ بولتی ۔ آج نواز شریف کا ملک میں کوئی وجود نہیں، شہباز نے حمزہ کو جانشین بنا لیا ہے، چودھری شجاعت کا جانشین تو کوئی نہ بن سکا۔ پرویز الہی نے مونس کو دستار سیاست پہنا دی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم لوگ پدرم سلطان بود کے نظریئے پر چلتے ہیں۔ مگر عمران نے کبھی نہیں کہا کہ پدرم سلطان بود۔ وہ سیلف میڈ سیاست دان ہے اورا س نے جوانی کے بائیس برس سیاست کی تربیت کے لئے صرف کئے تب جا کر گوہر مقصود اس کے ہاتھ آیا، مگر زرداری کا بیٹا ایک اور نو عمر باسط شیخ کے پیچھے پیچھے سیلاب کے پانی میں تراتا ہے او ر سمجھتا ہے کہ اس نے بڑا معرکہ مار لیا۔ اس کی والدہ کہا کرتی تھیں کہ اذان بج رہا ہے اور بلاول کہتا ہے کہ بارش آئے گا اور زیادہ بارش آئے گا تو سڑکوں پر پانی تو جمع ہو گا۔ یہ راز واسا کے انجینئروں کی دسترس میں نہ آ سکا۔ بلاول کے نانا نے مخالف لیڈروں پر طنز کیا تھا کیا کہ آلو خان۔ کچالو خان اورڈبل بیرل خان اسے کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے ۔
پاکستان میں کسی کی بھی پگڑی اچھالی جا سکتی ہے کیونکہ توہین ذات کی سزا کا کوئی مئوثر قانون مروج نہیں، یہی لب و لہجہ کوئی لندن میںا پنا کے دیکھے، واشنگٹن میں اپنا کے دیکھے تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ ایک زمانہ تھا جب پی پی پی میں لیڈر شپ کو اپنی عزت کا خیال تھا۔ غلام مصطفی جتوئی نے نوائے وقت فورم میں اپنے ستر کے بال پکڑ کر مجھ سے کہا تھا کہ محترمہ بے نظیر ان کے سفید بالوں کا ہی احترام کریں مگر نصرت بھٹو کو نکرے لگا دیا گیا اور چار کے ٹولے نے بغاوت کر دی، اب ہر کوئی خواہ بال کالے ہوںیا سفید ،وہ بلاول کے قصیدے پڑھتا ہے توبلاول وزیر اعظم پر چڑھ چڑھ کر حملے نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔مگر یاد رکھئے آسمان کی طرف تھوکا اپنے ہی منہ پر آن گرتا ہے۔ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوا تیلی۔
٭…٭…٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن