کشمیر : سفارتکاری نہیں ‘معیشت کمزور ہے
بھارت کی جانب سے کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی تاریخ آج کی نہیں ، کشمیری عوام نے جو جو ظلم ستم اپنے اوپر سہے ہیں اسکی تاریخ کم از کم 80 سال پرانی ہے ۔تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ڈوگر ہ انتظامیہ سے قبل ہی جب انگریز سرکار نے کشمیر کا سودا کیاتھا یہ مظالم اسوقت سے جاری ہیں، ہندو توسیع پسند اس پر آج تک قائم ہیں ، اور دوسری جانب آج 22 نہیں بلکہ ہزاروں شہداء جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی دنیا بھر میں کشمیریوں اور پاکستانیوں نے یوم شہادت منایا اور بھارتی درندگی کی مذمت کرتے ہوئے دنیا کے بڑے بڑے فورمز ، انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ بھارتی ظلم و ستم کی طرف دلاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارت کو ننگی بربریت سے روکا جائے ۔سعودی عرب میں سفارت خانہ پاکستان نے ایک آن لائن فورم کے تحت یوم شہداء کشمیرپر ہندوستانی کاروائیوںکی مذمت کی ، فور م سے سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز نے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان اور وزیر خارجہ کا حوالہ دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو ہر فورم پر پوری جانفشانی سے اٹھا رہا ہے ، فورم میں تمام مکاتب فکر کے پاکستانی اور کشمیر ی شامل تھے ، ادھر کشمیر کمیٹی جدہ نے اس موقع پر ایک مختصر تقریب کا اہتمام کی جس میں اسلامی تعاون تنظیم ( OIC ) میں پاکستان کے مستقل مندوب سینئر سفارتکار سفیر رضوان سعید شیخ، اور قونصل جنرل خالد مجید تھے ، یہ امر واقع ہے کہ اپنے اوپر مظالم سہہ کر کشمیروںنے دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر اور بھارتی بربریت کی طرف دلائی ہے ۔ بہ حیثیت مسلمان اور قریب ترین پڑوسی، ہمارا مذہبی فرض بھی ہے مسلمانوںپر ہونے والے مظالم کی مذمت کریں ، دوم بہ حیثیت پاکستانی ہمارے لئے فرض ہوگیا ہے کشمیر کی اخلاقی مدد اور اسکی آزادی کی کوشش کریں۔ چونکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا تھا ، معاشی طور پر جغرافائی طور کشمیر پاکستان کی ضرورت ہے ۔ اسلئے پاکستان میںحکومت کوئی بھی رہی ہو، جمہوری ، نیم جمہوری یا آمریت ، کسی سربراہ کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کشمیر کو پاکستان کیلئے ضروری قرار نہ دے ، کشمیر پر عالمی فورمز پر آواز نہ اٹھائے پیر صحافت مرحوم ڈاکٹر مجید نظامی اور انکا پورا ادارہ نوائے وقت و ادارے کی مطبوعات اس بات پر ہمیشہ قائم رہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اسکی وجہ کشمیر سے گزرنے والے وہ دریا ہیں جو پاکستان کی فصلوں کو پانی فراہم کرتے ہیں خدا نخواستہ کشمیر آزاد نہ ہوا تو بھارت کا بے ایمان ہندو اگر ان پانیوں، دریاوں کا رخ پاکستان کی جانے سے روک دے تو ( مودی کے منہ میں خاک ) پاکستان کی فصلیں تباہ ہوجائینگی اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا اسلئے مرحوم ڈاکٹر مجید نظامی ہر حکمران کو اس بات سے آگاہ کرتے رہے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کو اپنا نصب العین بنالو،، ہمارے نا عاقبت اندیش سیاست دان ہی ہیںجو جب حزب اختلاف میںہوتے ہیںوہ نہ صر ف مسند حکومت پر موجود سیاسی جماعتوں پر الزامات لگاتے ہیں کہ ’’کشمیر کا سودا ہوگیا ‘‘ بلکہ عالمی اداروں میں ، دوست و دنیا کے نقشے پر موجود ممالک میں سفارت کاری بہتر نہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ میں نے سعودی عرب میں گزشتہ 32 سال کے دوران کبھی پاکستان کی وزارت خارجہ یا سفارت کاروںکو اس سے غافل نہیں دیکھا کہ وہ بیرون ملک کشمیر پر پاکستانی موقف پر تائید حاصل کرنے کی کوشش نہ کررہے ہوں۔کشمیر پر عالمی دنیا کا موقف ہماری ہماری سوچ سے ہم آہنگ ہے ، وہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی بھر پور حمائت کرتے ہیں مگر دوسری جانب بھارت کی مذمت کرنے میںنہائت ’’کسر نفسی ‘‘ سے کام لیتے ہیں۔ کشمیری مجاہدین کی جدوجہد تیز ہوچلی ہے وہ گزشتہ ایک سال کے لگ بھگ کرفیو میں بیٹھے ہیں اسکے باوجود احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب یہ سوال اہم ہے کہ عالمی دنیا پاکستان کے موقف کی تائید کرنے کے باوجود بھارت پر پابندیاں یا بھارت کی بھرپور مذمت کیوں نہیںکرتی؟ اسکی وجہ سفارت کاری کی کمزوری نہیں ہماری معیشت کی کمزوری ہے ۔اگر ہمارے سیاست دانوں اور اسلام آباد میں اقتدار کے میوزیکل چیئر میں شامل لوگوں کو سمجھ بوجھ ہوتو وہ ملکی معیشت کی بہتری کی کوششیں کریں اور حکومت کا ہاتھ بٹائیں، اگر تو وہ کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں۔ چونکہ آج کشمیر پر پاکستانی موقف کی کوئی مخالفت نہیں کرتا مگر بھارت کی اسی شدت سے مذمت بھی نہیں کرتا ، اسکی وجہ یہ نہیں کہ سفارتکاری کمزور ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے ہماری معیشت کمزور ہے ۔اور بھارت کی معیشت تجارتی حوالوںسے ہم سے بہت بہتر ہے ، اسکی وجہ بھارت کی آبادی ہے ، کوئی ملک اپنی مارکیٹ خراب کرنا نہیں چاہتا ، اور آج کی دنیا میں مضبوط دوستیاں صرف دو ممالک کے درمیان تجارتی حجم کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ حبیب جالب کہا تھا …؎
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
کشمیر ی عوام کی جدوجہد کی تاریخ 1846 ء سے شروع ہوتی ہے جب ریاست جموں و کشمیر کی سلطنت تشکیل دی گئی تھی۔
برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر میں 95 مسلمان آبادی ہونے کے باوجود ہندو مہاراجہ گلاب سنگھ کو یہ علاقہ فروخت کردیا ، گلاب سنگھ کشمیری مسلمانوںپر ستم ڈھاتا تھا اور اس طرح کے کئی واقعات کے بعد کشمیر کے اس خطے میںبغاوت نے جنم لیا ، پھر کشمیر کی تاریخ میں 13جولائی ، 5 فروری ، 27 اکتوبر ، 5,اگست اہم دن ہیں۔ یہ تمام دن بھارتی ہندو کی جارحیت اور کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد کے استعارے ہیں ،پوری اسلامی تاریخ میں بھی یہ مثال نہیں ملتی جو 13 جولائی کو کشمیری عوام نے رقم کی یہ دنیا کی پہلی اور آخری اذان تھی جس میں یکے بعد دیگرے 22 شہیدوں نے شہادت کا عظیم رتبہ پایا یہ انکی جرات اور جذبہ ایمانی کی ایک شاندار مثال رہتی دنیا تک قائم رہے گی/ مبصرین لکھتے ہیں کہ 22 شہداء کی پشت پر گولی نہیں/ بلکہ انہوں نے سینوں پر گولیا ںکھائیں ۔ مودی سرکار یا RSSکے دہشت گرد بنئے جب کشمیریوں کی جدوجہد کی متعلق سوچتے ہونگے تو لباس کی تبدیلی انکی ضرورت بن جاتی ہوگی اور نیند بھی نہیں آتی ہوگی کہ انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کہاں پھنسا دیا ۔