• news
  • image

کیا عثمان بزدار جا رہے ہیں؟؟؟؟

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے چاہنے والے ان کی رخصتی کی خبریں چلا رہے ہیں، بحث ہو رہی ہے۔ سب کو ایک گرما گرم موضوع ملا ہوا ہے۔ پروگرامز ہو رہے ہیں، تجزیے و تبصرے ہو رہے ہیں۔سیاسی بازار گرم ہے۔ جو انہیں بھیجنا چاہتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہے اس کے بارے تو کچھ کہنا مشکل ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ انہیں ہلانے جلانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس دوڑ میں ان کے سیاسی مخالفین بھی شامل ہوتے ہیں اور سیاسی ساتھی بھی بوقت ضرورت اس نیک کام میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں لیکن اس دوڑ میںسب سے دلچسپ چیز اراکین اسمبلی کی دوڑیں ہیں کیونکہ ایک سو اسی اراکین اسمبلی میں سے ایک سو اناسی افراد وزارت اعلیٰ کے امیدوار نظر آتے ہیں۔ سب اپنے اپنے انداز میں دوڑ اور کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کوشش میں وہ اتنا تیز بھاگتے ہیں کہ اکثر اوقات وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سے آگے نکلنے والے یہ افراد جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو واپس اپنے باس کی طرف دوڑتے ہیں کیونکہ دور کھڑے عثمان بزدار مسکرا کر اپنے وزراء اور اراکین اسمبلی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پھر یہ سب ہانپتے ہانپتے عثمان بزدار کے پاس پہنچتے اور کہتے ہیں سر آپ اتنا پیچھے کیوں رہ گئے آئیں دوڑ لگاتے ہیں صحت مند مقابلے کی فضاء قائم کرتے ہیں۔ پھر وزیر اعلیٰ کی خوشامد کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے ان کی مسکراہٹ پر تعریفی کلمات ادا کیے جاتے ہیں، وزیر اعلیٰ کی سادگی کو تاریخ حیثیت دی جاتی ہے۔ ان کے بیانات پر داد دی جاتی ہے۔ اس تعریف کی وجہ وزارتوں کا خوف اور مستقبل میں کام نکلوانے کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہوتا ہے۔ اس کھیل میں کئی خبریں ایسی بھی دیکھی ہیں کہ رکن قومی اسمبلی کو بھی وزیر اعلیٰ کا امیدوار دکھا دیا گیا ہے۔ جب تک عثمان بزدار عہدے پر موجود ہیں یہ کام اور کھیل جاری رہے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تبدیلی صرف عمران خان کے عدم اعتماد سے ہی ممکن ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے کرنا ہے اور جب تک وہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کر لیں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے اور جب وزیراعظم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ عثمان بزدار کو رخصت کرنا ہے تو اس فیصلے کے بعد ان کا وزارت اعلیٰ کے عہدے پر ایک گھنٹہ گذارنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب عمران خان نے ذاتی حیثیت میں کیا تھا اور ان کی رخصتی کا فیصلہ بھی وہی کریں گے۔ اس مسئلے پر تجزیہ نگاروں، ٹی وی اینکرز اور سیاست دانوں سے گذارش ہے کہ اس مسئلے پر وقت ضائع نہ کریں۔ اس تبدیلی کے لیے وزیراعظم کی طرف دیکھیں کیونکہ حتمی فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے ایک سو اناسی خواہش مند افراد بھی یقین رکھیں کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ صرف ایک شخص نے ہی بننا ہے۔ شبلی فراز کی ٹویٹ کے بعد ویسے ہی یہ بحث ختم ہو جانی چاہیے کیونکہ شبلی فراز ایک سمجھدار اور سنجیدہ شخصیت ہیں مشکل ہے وہ کسی یو ٹرن پالیسی پر عمل کر رہے ہونگے۔ ویسے تو پاکستان تحریکِ انصاف کا ماضی یو ٹرن کے حوالے سے نہایت دلچسپ ہے اور کبھی کچھ بھی ممکن ہے اس میدان میں وہ چیمپیئن سمجھے جاتے ہیں لیکن شبلی فراز نے فوری طور پر افواہوں کا بازار تو بند کر دیا ہے۔ بزدار ہٹاؤ مہم کے پیچھے پنجاب اسمبلی کے وہ پاور پلیئرز ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ عثمان بزدار کمزور ہو جائے اور اسے دھکیل کر اس کرسی تک پہنچا جائے یہ شور اقتدار کے پجاریوں کا پیدا کردہ ہے وہ سب خواہشات کے سمندر میں سوئمنگ کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کو ڈبکیاں دینے کی کوشش میں خود الٹے سیدھے ہوتے رہتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کو گھر بھیجنے کی خواہش رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے اراکین اس دوڑ سے باہر نکلیں اور عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔ کیا اراکین، وزراء اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ذمہ داران جانتے ہیں کہ آٹے کی قلت ہے، چینی مل نہیں رہی، مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہے، ادویات کا مسئلہ ہے۔ کرونا کے پھیلاؤ اور اس عالمی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان حالات میں اراکین اسمبلی کو جوڑ توڑ کے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ وہ بتائیں کہ آٹے کی دستیابی کو کیسے یقینی بنانا ہے۔ عام آدمی کے مسائل کیسے حل کرنے ہیں۔ عید الاضحیٰ پر کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔ قوم کو کرونا سے کیسے بچانا ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر ہونے والے جرائم اور نواحی علاقوں میں ہونے والی وارداتوں پر غور کریں، امن و امان کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے منتخب نمائندے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں اس کے بعد مجاہدینِ کشمیر کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں۔ بھارتی مظالم کو بے نقاب کریں۔ قومی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ کشمیر کے مظلوم مسلمان ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ ان پر گولیاں برس رہی ہیں ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کیا پنجاب کے اراکین اسمبلی کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اس ظلم پر آواز بلند کریں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے پیٹرول کی قلت کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس نے میٹنگ منٹس بنائے ہیں لگتا ہے وزیراعظم کو خوش کرنے کے لیے بنائے ہیں۔ الزام لگتا ہے کہ حکومت کو غیر منتخب لوگ چلا رہے ہیں۔ غیر منتخب اپنا بیگ اٹھائیں گے اور چلے جائیں گے منتخب افراد کو عوام میں جانا پڑتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات بحران کے ذمہ دار عمر ایوب اور ندیم بابر ہیں۔ بحرانوں کی ذمہ داری وزیراعظم کی ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں مسائل وزرائ￿ کی ناکام حکمت عملی کی وجہ سے بڑھے ہیں۔ پیٹرولیم بحران میں تو ان دونوں سے ضرور تحقیقات ہونی چاہئیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز پینتیس چالیس اراکین ان کے ساتھ ہیں۔ یہ دعوی بالکل اسی طرح ہے جس طرح ہر دوسرا تکن وزیر اعلیٰ بننے کے خواہش مند بنا پھر رہا ہے۔ اراکین اسمبلی کو لانے اور توڑنے کے لیے کارکردگی دکھانا پڑتی ہے اور کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اپنے گھروں سے باہر نکلنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ حکومتی اراکین دوسروں کو توڑنے کے لیے مافیاز کو توڑیں تاکہ عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا ہو جب تک کارکردگی نہ دکھائی جائے کوئی نہیں آتا اور کارکردگی کے بارے کسی کو شک ہے تو کسی بازار میں جائے اور خود عوام سے پوچھ لے اندازہ ہو جائے گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن