اخلاص نیت (۳)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کیخلاف فیصلہ سنایا جائیگا، جس نے شہادت پائی ہوگی، اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرکیا جائیگا ۔ خدا اسے اپنی تمام نعمتیں یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے میری نعمت کے بدلے کیا کام کیا؟ وہ عرض کریگا‘ میں نے تیری خوشنودی کی خاطر جہاد کیا، یہاں تک اپنی جان قربان کردی۔ خدا اس سے کہے گا تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے صرف اس لیے لڑائی میں حصہ لیاکہ لوگ تجھے بہادر اور شجاع تسلیم کرلیں۔ سو دنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہو گا اس (نامراد) کو منہ کے بل گھسیٹے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو۔ پھر ایک اورشخص کو خدا کی عدالت میں پیش کیا جائیگا جو دین کا عالم و متعلم ہوگا۔ خدا اسے اپنے انعامات یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اس سے کہے گا‘ ان نعمتوں کویاد کرکے تونے کیا عمل کیے۔ وہ عرض کریگا‘ اے پروردگار، میں نے تیری خاطر دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اسکی تعلیم دی اور تیری خاطر درس قرآن دیا۔ اللہ فرمائے گا‘ تم نے جھوٹ کہا تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھاکہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور قرآن مجید کا درس محض اس لیے دیتے رہے کہ یہ قرآن کا قاری ہے (اور اسکے رموز سے آشنا ہے) سو تمہیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو جہنم میں پھینک دو۔ تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مال ومنال اور آسودگی سے شاد کام کیا ہوگا۔ ایسے شخص کو بارگاہ ربوبیت میں پیش کیا جائیگا۔ اللہ اسے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے مطلع کریگا‘ وہ اقرار کریگا کہ یہ سب نعمتیں اسے دی گئیں۔ تب اس سے سوال ہو گا کہ تو نے ان نعمتوں کا کیا کیا۔ وہ جواب میں کہے گا۔ وہ تمام راستے جن پر خرچ کرنا تجھے پسند تھا میں نے ان سب راستوں پر تیری خوشنودی کی خاطر خرچ کرنا (کبھی) ترک نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا‘ تو نے جھوٹ کہا، یہ سارا مال تو نے اس لیے لٹا دیا کہ لوگ سخی کہیں سو تجھے دنیا میں یہ لقب مل گیا (اب آخرت میں تیرا کوئی حصہ نہیں) پھر حکم ہوگا کہ اسے (بھی) چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو‘ سو اسے بھی جہنم رسید کردیا جائیگا (مسلم شریف)۔ بیان کردہ روایات اسلامی ماحول اور معاشرے میں حسن نیت اور اخلاص کی فضاء پیدا کرنے کی تلقین کرتی ہیں بلکہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مومن جہاں بھی ہو اسکے ہر کام کی غرض محض اور محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔